یوم پاکستان ۔ایک لمحہ فکریہ
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی ایک اہم تحریر سے انتخاب
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کا حصول اورمسلمانوں کی الگ مملکت کا قیام اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت تھی جو اس خطے کے مسلمانوں پر ہوئی، اور یہ اہل پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس نعمت عظمیٰ کو ہر قدم پر یاد رکھیں، اور اسے فراموش نہ ہونے دیں ۔
لیکن اس سلسلے میں دو گذارشات ہمیں پیش کرنی ہیں ۔پہلی گذارش تو یہ ہے کہ جس طرح پاکستان کاقیام اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام تھا، اسی طرح اس کا ایک عظیم الشّان کرم یہ تھا کہ اس مملکت خداداد کے قیام کے لئے 27رمضان اور جمعہ کے دن کا انتخاب کیا گیا ۔ ظاہر میں نگاہیں اس بات کو محض ایک اتفاق سے تعبیر کریں گی کہ جو دن ان اقوام کے اتفاق سے قیام پاکستان کا دن قرار پایا وہ جمعہ 27رمضان کا دِن تھا۔جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اورحکمت بالغہ پر ہو، اس کے نزدیک اس کائنات کا کوئی واقعہ محض اتفاق نہیں ہوتا۔
لہٰذا قیام پاکستان کے لئے رمضان کے مہینے، اس مہینے کے آخری عشرے، آخری عشرے کی بھی ستائیسویں تاریخ، اور اس میں بھی جمعہ کے دن کا انتخاب نہ تو انسانی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اور نہ بخت و اتفاق کا، بلکہ یقینا یہ تعیین منجانب اللہ تھی۔
لیکن اس عطاء کے مقابلے میں اپنی ناشکری اور ناقدری ملاحظہ فرمائیے کہ اس نعمت کا اتنا ادراک و احساس کرنے کی بھی ہمیں توفیق نہ ہوئی کہ ہم 27رمضان کو بطور یوم پاکستان تسلیم کرلیتے۔ چنانچہ جب یوم آزادی منانے کے لئے دن کی تعیین کا سوال آیا تو ہم نے 27رمضان کے بجائے 14اگست کو اپنا یوم آزادی قراردیا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس معاملے میں پوری قوم بے حسی کا شکار نہیں ہوئی، بلکہ تقریباً ہر سال یہ آوازیں مختلف حلقوں سے اُٹھتی رہی ہیں کہ ملک کا یوم آزادی 14اگست کے بجائے 27رمضان کو قرار دیا جائے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بفضلہ تعالیٰ یہ ملک ان اللہ کے بندوں سے خالی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس غیبی نعمت کا احساس و ادراک رکھتے ہیں۔اس لئے حکومت سے یہ توقع بے جا نہ تھی کہ وہ اس سنگین غلطی کی تلافی کرے اور ہم سے ماضی میں 27رمضان کی ناقدری کا جو جرم سر زد ہوا ہے، اس سے اجتماعی توبہ کر کے آئندہ کے لئے 14اگست کے بجائے 27رمضان کو یوم پاکستان قرار دے۔
دوسری گذارش یہ ہے کہ ہمارا یوم آزادی، اس پر منایا جانے والا جشن اور اس موقع پر منعقد ہونے والی تقاریب ان دوسری اقوام کے جشن آزادی سے مختلف اور ممتاز ہونی چاہئیں جن کے نزدیک یوم آزادی کی مسرت چند رسمی کھیل تماشوں سے عبارت ہے۔ہمارا یوم آزادی درحقیقت یوم شکر ہونا چاہے، جس میں ہماری صرف زبان ہی نہیں، بلکہ ہماری ایک ایک نقل و حرکت شکر گزاری کی آئینہ دار ہو۔ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ خوشی منانے میں ہم کہیں ان حدود کو نہ پھلانگ جائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمائی ۔
پاکستان کا یوم استقلال ہر سال ہم سے یہ سوال بھی کرتا ہے کہ جس ملک کے قیام کے لئے ہزارہا مسلمانوں نے اپنی جان و مال، اپنے جذبات اور اپنی عزت و آبرو کی بیش بہا قربانیاں دی تھیں اور جس کی بنیاد میں نہ جانے کتنے مسلمانوں کا خونِ معصوم شامل ہے، اس کے قیام کے مقدس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے کتنی پیش رفت کی ہے؟ جب تک ہم اس سوال کے جواب میں اپنے پروردگار اور اپنے مقدس اسلاف کی روحوں کے سامنے سرخرو ہونے کے اسباب پیدا نہ کریں، اس وقت تک یوم آزادی کی یہ تقریبات محض ایک رسمی کارروائی بنی رہیں گی ، اور قیام پاکستان کے اصل مقصد کے پیش نظر ان کی حیثیت ہماری بے عملی پر ایک بھر پور طنز سے زیادہ نہیں ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں وہ روز سعید جلد نصیب فرمائے جس میں ہم سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ غیروں کی فکری غلامی سے بھی نجات حاصل کرلیں۔ ہمارا حقیقی یوم آزادی وہ ہوگا اور ہمارا فرض ہے کہ اس رسمی یوم آزادی کو اس روز ِ سعید کے حصول کے لئے استعمال کریں۔ آمین ۔ (بشکریہ الصیانۃ ، اگست 2016ء)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/