یہ بھی امانت میں خیانت ہے

یہ بھی امانت میں خیانت ہے

عربی زبان میں ’’ امانت ‘‘ کے معنی یہ ہیں ک کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ کرنا، لہٰذا وہ ہرچیز جو دوسرے کو اس طرح سپرد کی گئی ہو، کہ سپرد کرنے والے نے اس پر بھروسہ کیاہ و کہ یہ اس کا حق ادا کرے گا ، یہ ہے امانت کی حقیقت ، لہٰذا کوئی شخص کوئی کام یا کوئی مال جو دوسرے کے سپرد کرے، اور سپرد کرنے والا اس بھروسہ پر کرے کہ یہ شخص اس سلسلے میں اپنے فریضے کو صحیح طور پر بجا لائے گا اور اس میں کوتاہی نہیں کرے گا۔ یہ امانت ہے لہٰذا ’’ امانت ‘‘ کی اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بے شمار چیزیں اس میں داخل ہوجاتی ہیں۔
یہ پوری زندگی ہمارے پاس امانت ہے اوراس امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس زندگی کواللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق گزاردیں، لہٰذا سب سے بڑی امانت جو ہر انسان کے پاس ہے جس سے کوئی انسان بھی مستثنیٰ نہیں ہے وہ امانت خود اس کا ’’ وجود ‘‘ اوراس کی ’’ زندگی ‘‘ اوراس کے اعضاء و جوارح ، اس کے اوقات، اس کی توانائیاں ہیں یہ سب کی سب امانت ہیں ، کیا کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے اس ہاتھ کا مالک ہوں، یہ آنکھ جو مجھے ملی ہوئی ہے میں اس کامالک ہوں، ایسا نہیں بلکہ یہ سارے اعضاء ہمارے پاس امانت ہیں ، ہم اس کے مالک نہیں ہیں کہ جس طرح چاہیں ان کو استعمال کریں بلکہ اعضاء کی یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں استعمال کیلئے عطا فرمائی ہیں لہٰذا اس امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان اعضاء کو، اپنے اس وجود کو ، اپنی صلاحیتوں کو اوراپنی توانائیوں کو اسی کام میں صرف کریں جس کام کیلئے یہ دی گئی ہیں ، اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں صرف کریں گے تو یہ امانت میں خیانت ہوگی۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ جسم ہمارااپنا ہے لہٰذا اس کے ساتھ ہم جو چاہیں کریں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اسی لئے شریعت میں خود کشی کرنا حرام ہے۔
اسی طرح ایک شخص نے کہیں ملازمت کرلی اور ملازمت میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دینے کا معاہدہ ہوگیا، یہ آٹھ گھنٹے آپ نے اس کے ہاتھ فروخت کردیئے لہٰذا یہ آٹھ گھنٹے کے اوقات آپ کے پاس اس شخص کی امانت ہیں جس کے یہاںآپ نے ملازمت کی ہے لہٰذا اگر ان آٹھ گھنٹوں میںسے ایک منٹ بھی آپ نے کسی ایسے کام میں صرف کردیا جس میں صرف کرنے کی مالک کی طرف سے اجازت نہیں تھی تو یہ امانت میں خیانت ہے۔
جس دفتر میں آپ کام کررہے ہیں اس دفتر کا جتنا سامان ہے وہ سب آپ کے پاس امانت ہے اس لئے کہ وہ سامان آپ کو اس لئے دیا گیاہے کہ اس کو دفتری کاموں میں استعمال کریں لہٰذا آپ اس کو ذاتی کاموں میں استعمال نہ کریں۔ اس لئے کہ یہ بھی امانت میں خیانت ہے۔
غرض یہ ہے کہ امانت میں خیانت کے مصداق اتنے ہیں کہ شاید زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں ہمیں امانت کا حکم نہ ہو۔ اورخیانت سے ہمیں روکا نہ گیا ہو ، یہ ساری باتیں جو میں نے ذکر کیں ہیں یہ سب امانت کے خلاف ہیں اور نفاق کے اندر داخل ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمارے دلوں میںفکر پیدافرما دے اور اس کی توفیق عطا ء فرمادے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اس طریقے پر ہم عمل کریں آمین۔(اصلاحی خطبات جلد سوم)

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more