وقت کی قدر دانی کا عجیب واقعہ
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے خطبات سے انتخاب
میرے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے ایک استاذ میاں سید اصغر حسین صاحب رحمہ اللہ بڑے اونچے درجے کے بزرگ تھے اور حضرت میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے۔
حضرت والد صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہواتو میاں صاحب کہنے لگے کہ بھائی دیکھو آج ہم عربی میں بات کریں گے۔میں نے پوچھا حضرت کیا وجہ ہے؟ فرمایا : نہیں بس ویسے ہی خیال آگیا۔
جب میں نے بہت اصرار کیا تو فرمایا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ جب ہم دونوں مل کر بیٹھتے ہیں تو بہت باتیں چل پڑتی ہیں ۔ اِدھر اُدھر کی گفتگوکے نتیجے میں ہم لوگ بعض اوقات غلط باتوں میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ اگر ہم عربی میں بات کرنے کا اہتمام کریں تو عربی نہ تمہیں روانی کے ساتھ بولنی آتی ہے اور نہ مجھے ۔ لہٰذا کچھ تکلف کیساتھ عربی میں بولنا پڑے گا تو زبان جو بے محابا چلتی ہے یہ قابو میں آجائیگی۔پھر حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی! ہماری مثال اس شخص جیسی ہے جو اپنے گھر سے بہت ساری اشرفیاں بہت سارے پیسے لے کر سفر پر روانہ ہوا تھا اور ابھی اس کا سفر جاری تھا کہ اس کی ساری اشرفیاں خرچ ہوگئیں اور اب چند اشرفیاں اس کے پاس باقی رہ گئیںاور اب وہ ان اشرفیوں کو بہت سنبھال کر اور پھونک پھونک کر خرچ کرتا ہے۔
پھر فرمایا کہ ہم نے اپنی اکثر عمر گزار دی اورجو لمحات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے ۔یہ سب منزل تک پہنچنے کیلئے اشرفیاں تھیں اگر ان کو صحیح طریقے سے استعمال کرتے تو منزل تک پہنچنا آسان ہوجاتا لیکن ہم نے پتہ نہیں‘ کن کن چیزوں میں اس کو خرچ کردیا۔ اب یہ دل چا ہتا ہے زندگی کے ان اوقات کو تول تول کر احتیاط کے ساتھ پھونک پھونک کر استعمال کریں۔۔۔(اصلاحی خطبات جلد ۴ ص ۱۴۹)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/