اُمت کو 4نبوی تحفے
۔(۱)عقیدہ توحید:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت پر سب سے بڑا احسان، امت کیلئے سب سے پیارا تحفہ ’’عقیدہ توحید‘‘ کی نعمت ہے۔ یہ انسان جو اپنے سے کہیں زائد مجبور ،اپنے سے بڑھ کر ذلیل‘ بے حس وبے حرکت‘ بے جان ومردہ‘ اپنی ہی تخلیق شدہ چیزوں کے سامنے جھکتا تھا‘ ان سے خوف کھاتا تھا، ان سے امیدیں وابستہ کرتا تھا، ان سے توقعات باندھتا تھا، ان کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اپنی جبین نیاز جھکا دیتا تھا۔ جس کے نتیجے میں اس کے اندر بزدلی‘ ذہنی انتشار‘ بے اعتمادی اور وہم کی بیماریوں نے جڑیں مضبوط کرلی تھیں۔ اس حیات بخش ’’عقیدہ توحید‘‘ نے انسان کو بزدلی کے گہرے غار سے پوری حفاظت کے ساتھ باہر نکال لیا۔اُمت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان عظیم ہے۔یہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا‘ سب سے بھاری جلیل القدر‘ منفعت بخش‘ نقائص سے محفوظ‘ کجی سے دور‘ ہدایت سے بھرپور نہایت پیارا تحفہ ہے۔
۔(۲)وحدت انسانیت کا تصور:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا بڑا احسان اپنی امت پر ’’وحدت انسانی کا تصور‘‘ ہے۔ یہ انسان جو قوموں‘ برادریوں‘ اعلیٰ ادنیٰ طبقوں میں اس طرح بٹا ہوا تھا کہ کہیں آپس میں انسانوں اور جانوروں کے سے فرق کا مشاہدہ ہورہا تھا ۔ ایسے میں ایک صدا فضائوں میں گونجی‘ سماعتوں سے ٹکرائی ’’اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔تم سب اولاد آدم ہو، اور آدم مٹی سے بنے تھے۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم سب سے زیادہ پاک باز ہے۔کسی عربی کی عجمی پر فضیلت نہیں مگر تقویٰ پر۔
۔’’وحدت انسانیت کے تصور‘‘ سے بھرپور اس اعلان کے ایک ایک لفظ پر انسانیت نے غور کیا۔ دماغوں پر جاہلیت بھری قائم چٹانوں میں شگاف اور دراڑیں پڑ گئیں ، شیطان کی اُمیدیں دم توڑ گئیں۔ اس کی خواہشوں کا گلا گھٹ گیا۔اس لئے کہ روم سے صہیب آیا‘ فارس سے سلمان آیا، حبشہ سے بلال آیا، مکے سے مہاجر آیا‘ مدینے سے انصار ملا اور آپس میں ایسے شیر وشکر ہوگئے، باہم ایسے گھل مل گئے کہ انفرادی شناخت تک ممکن نہ رہی اور عرب وعجم کا فرق مٹ گیا۔ غریب کی غربت کا اتنا دکھ خود غریب کو نہیں ہوتا تھا جتنا عثمان غنیؓ کے دل میں ہوتا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کیلئے یہ عظیم تحفہ ہے جس کی نظیر انسانیت کی جھولی میں ہے ہی نہیں۔
۔(۳)احترام انسانیت:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا بڑا ’’جلیل القدر عظیم اور قیمتی تحفہ ’’احترام انسانیت‘‘ ہے۔ وہ معاشرہ جس میں معمولی بے قیمت اشیاء کو مقدس اور پالتو بناکر اس پر انسانی جانوں کی بھینٹ چڑھانے کا دستور اور رواج تھا اس معاشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے دل ودماغ پر یہ نقش بٹھا دیا کہ انسان اس کائنات کا سب سے زیادہ قیمتی قابل احترام لائق محبت اور مستحق حفاظت وجود ہے۔اس کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کے اوپر صرف خالق کائنات کی ہستی رہ جاتی ہے۔
غور کیجئے دنیا کے کسی مذہب وفلسفے میں انسان کو یہ مقام دیا گیا ہے؟دنیا کا یہ مشاہدہ ہے کہ جب بھی ’’احترام انسانیت‘‘ کا یہ تصور نگاہوں سے اوجھل ہوا‘ دل ودماغ سے مٹ گیا تو ایک انسان کی ادنیٰ خواہش کی قیمت ہزاروں انسانوں کی جانوں سے زیادہ بن گئی۔
۔(۴)حقیقی منزل کی تعیین:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چوتھا بڑا تحفہ پر یہ ہے کہ ’’انسان کی حقیقی منزل اللہ تعالیٰ کی محبت ومحبوبیت ہے‘‘۔ انسان اپنی منزل مقصود کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا اس لئے اسکی صلاحیتیں ،ساری توانائیاں اور کاوشیں غیر اہم منزلوں پر صرف ہورہیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے دل پر یہ بات نقش کردی کہ خالق کائنات کی صحیح معرفت‘ خالق کائنات کو راضی کرنا اور اس سے راضی ہوجانا ہے۔ یہی حقیقی سعادت اور کمال آدمیت ہے۔یہ ترقی کی وہ منزلیں ہیں جہاں فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اس خود غرض انسان کو بے غرض بنادینے کا نسخہ کسی حکیم فلسفی وشاعر کے پاس ہے؟
رب ذوالجلال والاکرام کی قسم! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم تحفہ ہے۔جس نے انسانوں کے مزاج بدل دئیے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

