راحت تو صرف قناعت میں ہے
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اپنے گھر میں ائیر کنڈیشنر لگانا چاہا تو سب سے پہلے تو اس کی خریداری میں اچھی خاصی رقم خرچ ہوئی ،جب کسی طرح اس کو خرید لیا تو پھر پتہ چلا کہ بجلی کی وائرنگ اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس کے بوجھ کواٹھا سکے۔ لہٰذا اس کے لئے نئی وائرنگ ہوگی اور اس میں اتنے پیسے خرچ ہونگے۔ چنانچہ پیسے خرچ کر کے نئی وائرنگ کرالی۔پھر پتہ چلا کہ وولٹیج اتنا کم ہے کہ وہ اس کو نہیں چلا سکتا ۔ اس کے لئے ’’اسٹیپلائزر‘‘کی ضرورت ہے چنانچہ وہ بھی خرید کر لگالیا۔ لیکن پھر بھی وہ نہ چلا اور اب یہ پتہ چلا کہ یہاں پر بجلی کا پاور اور زیادہ کم ہے ۔اس کے لئے فلاں پاور کی اسٹیپلائزر کی ضرورت ہے ۔تقریباًچھے مہینے اس ادھیڑ بن میں گزر گئے ۔دنیا کی کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے کہ اس کے پورا ہونے کے بعد دوسری نئی ضرورت سامنے نہ آجائے، پیسے بھی خر چ کر لئے۔ بھاگ دوڑ بھی کر لی۔ لیکن وہ ’’راحت‘‘حاصل نہیں ہورہی ہے اس لئے کہ یہ’’راحت‘‘یہ آرام یہ سکون اللہ جل جلالہ کی عطا ہے ۔یہ پیسوں سے نہیں خریدا جا سکتا۔
یاد رکھئے! جب تک انسان کے اندر ’’قناعت ‘‘پید انہ ہو اور جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرنے کاعادی نہ بن جائے۔ اس وقت تک کبھی راحت اور سکون حاصل نہیں ہوسکتا۔ چاہے اس کے لئے کتنے ہی پیسے خرچ کر ڈالو، اور کتنا ہی سازوسامان جمع کر لو، بلکہ ا س کے حاصل کرنے کا طریقہ وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا، وہ یہ کہ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھو۔اپنے سے اوپر والے کو مت دیکھو ،اور پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔’’قناعت‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ۔ اس پر آ دمی راضی اور خوش ہو جائے۔ لیکن ’’قناعت‘‘ کے ساتھ اگر آ دمی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ میرے مکان میں فلاں تکلیف ہے یہ دور ہو جائے، اورمیں جائز طریقے سے اور حلال آ مدنی سے اس تکلیف کو دور کرنا چاہتا ہوں تو یہ ’’آسائش ‘‘کے اندر داخل ہے اور جائز ہے۔ یہ خواہش ’’حرص‘‘ کے اندر داخل نہیں۔ بشر طیکہ اس کام کو کرانے کے لئے جائز اور حلال طریقہ اختیار کرے۔ناجائز اور حرام طریقہ اختیار نہ کرے تو یہ جائز ہے ۔
لیکن اگر مکان میں تمام سہولتیں حاصل ہیںلیکن میرے مکان کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو تھرڈ کلاس آدمی ہے اب اس غرض کے لئے مکان کو عمدہ بناتا ہوں تاکہ اس کی نمائش ہو، لوگ اس کی تعریف کریں اوراس کودیکھ کر لوگ مجھے دولت مند سمجھیں ۔اس وقت یہ کام کرنا حرام ہے ، حرص میں داخل ہے اور یہ کام ’’قناعت‘‘کے خلاف ہے ۔
آج لوگ دنیا ہی کے پیمانے سے ناپے جاتے ہیں۔ چنانچہ جس کے پا س زیادہ روپے پیسے نہیں ہیں۔ وہ جب کسی بڑے دولت مند کو دیکھتا ہے کہ اس کے پاس پیسے بہت ہیں۔ اس کی فیکٹریاں ہیں، نوکر چاکر ہیں اوربینک بیلنس ہے۔جو چاہتا ہے کرتا ہے یہ سب چیزیں دیکھ کرلگتاہے یہ آدمی بڑا خوش نصیب ہے پھر دل چاہتا ہے کہ یہ چیزیں ہمیں بھی مل جائیں لیکن بات یہ ہے کہ تمہیں کیا معلوم ہے کہ اس مال و دولت اور کوٹھی اوربنگلے کے پیچھے اس کو سکون میسر ہے یا نہیں؟چونکہ لوگ میرے پاس آکر اپنے اندرونی حال بتاتے ہیں اس لئے نہ جانے کتنے لوگ خود میرے علم میں ایسے ہیں کہ اگر ایک عام آدمی اس شخص کو اوراس کے ظاہری حالات کو دیکھے گا تو وہ یہی سمجھے گا کہ دنیا کی عظیم ترین دولت اس کو ملی ہوئی ہے کاش! میں بھی اس جیسا بن جائوں۔ اس کو یہ معلوم نہیں کہ ا س کی اندرونی زندگی میں کیا عذاب برپا ہے ۔ اور کس مصیبت میں مبتلا ہے۔
بہر حال! یہ راحت اور سکون پیسے سے نہیں خریدا جا سکتا اور نہ دولت کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے وہ اگر چاہیں تو چٹنی روٹی میں دیدیں۔ اور اگر نہ چاہیں تو کوٹھی اور بنگلے میں بھی نہ دیں لہٰذا کہاں تک اس کے پیچھے دوڑ لگاؤگے؟
اس لئے دنیا کی اتنی سی حقیقت سمجھ لو کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ ہی نہیں۔ جوکچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا اس پر قناعت میسر نہیں تو پھردنیا کے مال واسباب میں بڑھتے چلے جائو گے ۔ مگر سکون میسر نہیں آ ئے گا ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

