صلہ رحمی

صلہ رحمی

احادیث میں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو ’’صلہ رحمی‘‘ کہا جاتا ہے، اور ’’صلہ رحمی‘‘ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے جس پر اللہ تعالیٰ بہت ثواب عطا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم بھی کئی مقامات پر صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور اس کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ صلہ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے، ان کے دکھ سکھ میں شامل رہے، ان کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو جائز طور پر ان کی مدد کرے۔

لیکن ’’صلہ رحمی‘‘ کے بارے میں چند باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں:۔

۔۱- بعض لوگ رشتہ داروں کی رعایت اس حد تک کرتے ہیں کہ اس کام کے لئے گناہوں کے ارتکاب سے بھی دریغ نہیں کرتے، اور اپنے اس عمل کو ’’صلہ رحمی‘‘ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مثلاً رشتہ داروں کے اصرار پر کسی گناہ میں شریک ہو جانا، ان کی ناجائز سفارش کر دینا، یا انہیں ایسی ملازمت دلوا دینا جس کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ باتیں ہرگز جائز نہیں ہیں، اور ’’صلہ رحمی‘‘ کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ رشتہ داروں کی خاطر یا ان کی مروت میں گناہوں کا ارتکاب کیا جائے۔ لہٰذا جب کوئی رشتہ دار کسی ناجائز کام کو کہے تو اس سے نرمی کے ساتھ معذرت کر دینا ضروری ہے۔

۔۲- دوسری بات یہ ہے کہ ’’صلہ رحمی‘‘ اس وقت موجب ثواب ہوتی ہے جب اس کا مقصد اپنے رشتہ دار کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خوش کرنا ہو۔ اگر محض بدلہ، دکھاوا، یا رسموں کی پابندی میں کوئی کام کیا جائے تو اس پر ’’صلہ رحمی‘‘ کی فضیلت حاصل ہونی مشکل ہے۔

۔۳- چونکہ ’’صلہ رحمی‘‘ خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے، اس لئے دوسری طرف سے اس کے بدلے کا انتظار بھی نہ کرنا چاہئے۔ اور اگر دوسری طرف سے اس کا اچھا جواب نہ ملے تب بھی ’’صلہ رحمی‘‘ کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو دوسروں کا بدلہ چکائے۔ بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب دوسرے اس کی رشتہ داری کی حق تلفی کریں، تب بھی یہ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں مگر وہ میری حق تلفی کرتے ہیں۔ میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر واقعی ایسا ہے تو گویا تم انہیں گرم راکھ کھلا رہے ہو، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مددگار رہے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/


Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more