حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شب معراج
واقعہ معراج سن۵ نبوی میں پیش آیا۔۔۔ اس واقعہ کے بعد ۱۸ سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما رہے۔۔۔ لیکن ان اٹھارہ سال کے دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج کے بارہ میں کوئی خاص حکم دیا ہو یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو یا اس کے بارہ میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شب قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے نہ تو آپ کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے اور نہ آپ کے زمانے میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد سو سال تک صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین دنیا میں موجود رہے۔۔۔ اس پوری صدی میں صحابہ نے ۲۷ رجب کا کوئی اہتمام نہیں کیا لہٰذا اس کو دین کا حصہ قرار دینا یا اس کو سنت قرار دینا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (معاذ اللہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے اگر صحابہ نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اس کو کروں تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں۔
لہٰذا اس رات خاص اہتمام سے عبادت کرنا بدعت ہے اسی طرح ۲۷ رجب کا روزہ ہے۔۔۔ بعض لوگ اس روزہ کو فضیلت والا سمجھتے ہیں جیسا کہ عاشورہ اور عرفہ کا روزہ فضیلت والا ہے۔۔۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس بارہ میں صحیح سند سے کوئی روایت ثابت نہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض لوگ ۲۷ رجب کو روزہ رکھنے لگے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو فوراً گھر سے نکل پڑے اور ایک ایک شخص کو جا کر زبردستی فرماتے کہ میرے سامنے کھانا کھائو اور اس بات کا ثبوت دوکہ تمہارا روزہ نہیں آپ نے یہ اہتمام اس لئے فرمایا کہ بدعت کا سدباب ہو اور دین کے اندر اپنی طرف سے زیادتی نہ ہو۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/