صاحب زکوٰۃ کون ہوتا ہے؟
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے ایک وعظ کا خلاصہ
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کماحقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے، ان کے لئے بڑے سخت الفاظ میں عذاب کی خبر دی ہے۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر ایسی شدید وعید کیوں بیان فرمائی؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ مال تم اس دنیا میں حاصل کرتے ہو، چاہے تجارت کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، چاہے ملازمت کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، چاہے کاشت کاری کے ذریعہ حاصل کرتے ہو، یا کسی اور ذریعہ سے حاصل کرتے ہو، ذرا غور کرو کہ وہ مال کہاں سے آ رہا ہے؟
کیا تمہارے اندر طاقت تھی کہ تم اپنے زور بازو سے وہ مال جمع کر سکتے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا حکیمانہ نظام ہے، وہ اپنے اس نظام کے ذریعہ تمہیں رزق پہنچا رہا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتے کہ یہ مال ہماری عطا کی ہوئی چیز ہے، لہٰذا اس میں سے ڈھائی فیصد تم رکھو اور ساڑھے ستانوے فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو بھی انصاف کے خلاف نہیں تھا، کیونکہ یہ سارا مال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کی ملکیت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا ایک نصاب مقرر کیا ہے کہ اس نصاب سے کم اگر کوئی شخص مالک ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، اگر اس نصاب کا مالک ہو گا تو زکوٰۃ فرض ہو گی۔ وہ نصاب یہ ہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا نقد روپیہ، یا زیور، یا سامان تجارت وغیرہ، جس شخص کے پاس یہ مال اتنی مقدار میں موجود ہو تو اس کو ’’ صاحب نصاب‘‘ کہا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

