سفارش کا انداز دباؤ ڈالنے والا نہ ہو
سفارش کرنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے بشر طیکہ اس سے کسی اللہ کے بندے کو فائدہ پہنچانا اور ثواب حاصل کرنا مقصود ہو۔احسان جتلانا مقصود نہ ہو کہ فلاں وقت میں نے تمہارا کام بنا دیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا مقصود ہوکہ اللہ کے ایک بند کے کام میں میں نے تھوڑی سی مدد کردی تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس پر مجھے اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔اس نقطہ نظر سے جو سفارش کی جائے وہ بہت باعث اجر و ثواب ہے۔
لیکن سفارش کرنے کے کچھ احکام ہیں ۔ کس موقع پر سفار ش کرناجائزہے اورکس موقع پر جائز نہیںسفارش کا کیا مطلب ہے ؟ سفارش کا نتیجہ کیا ہونا چاہئے کسی طرح سفارش کرنی چاہئے ؟ یہ ساری باتیں سمجھنے کی ہیں اوران کے نہ سمجھنے کی وجہ سے سفارش جو بہت اچھی چیز تھی فائدہ مند اور باعث اجر و ثواب چیز تھی ، الٹی باعث گناہ بن رہی ہے اوراس سے معاشرے میں فساد پھیل رہا ہے اس لئے ان احکا م کو سمجھنا ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ سفارش ہمیشہ ایسے کام کی ہونی چاہئے جو جائز او ر برحق ہوکسی ناجائز کام کیلئے یا ناحق کام کیلئے سفارش کسی حالت میں بھی جائز نہیں ۔ ایک شخص کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ وہ فلاں منصب اور فلاں عہدہ کا اہل نہیں ہے اوراس نے اس عہدہ کے حصول کیلئے درخواست دے رکھی ہے اورآپ کے پاس سفارش کیلئے آتا ہے لیکن آپ نے صرف یہ دیکھ کر کہ یہ ضرورت مند ہے سفارش لکھ دی کہ اس کو فلاں منصب پر فائز کردیا جائے یا فلاں ملازمت اس کو دے دی جائے تو یہ سفارش ناجائز ہے۔
کسی قاضی اور جج کے پاس تصفیہ کیلئے کوئی فیصلہ درپیش ہے اوراس کے سامنے فریقین کی طرف سے گواہیاں پیش ہورہی ہیں ۔اس وقت میں اگر کوئی یہ سفارش کرے کہ فلاں کا ذرا خیال رکھئے گا یا فلاں کے حق میں فیصلہ کردیجئے گا تو یہ سفارش جائز نہیں۔
یہ بات تو اہم ہے ہی اور لوگ اعتقادی طور پر اس کو جانتے بھی ہیں کہ ناجائز سفارش نہیں کرنی چاہئے لیکن اس سے بھی آگے ایک اور مسئلہ ہے جس کی طرف عموماً دھیان نہیں اور آج کل لوگ اس کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ وہ یہ ہے کہ لوگ آج کل سفارش کی حقیقت نہیں سمجھتے، سفارش کی حقیقت یہ ہے کہ جس کے پاس شفارش کی جارہی ہے اس کو صرف توجہ دلانا ہے۔
اب آپ نے سفارش کرکے اس پر دبائو ڈالنا شروع کردیااو ر دبائو ڈال کر اس سے کام کرانا چاہا تو یہ سفارش نہیں زبردستی ہے اور کسی بھی مسلمان کے اوپر زبردستی کرنا جائز نہیں اس کا عام طور پر لوگ خیال نہیں کرتے۔
یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ سفارش کاانداز دبائو ڈالنے والا نہ ہو اسی لئے حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہٗ جب کسی کے نام سفارش لکھتے تو اکثر و بیشتر یہ الفاظ لکھتے کہ ’’ میرے خیال میں یہ صاحب اس کام کیلئے موزوں ہیں، اگرآپ کے اختیار میں ہو اور آپ کی مصلحت اوراصول کے خلاف نہ ہو تو ان کا کام کردیجئے۔
خلاصہ عرض کردیتاہوںکہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سفارش ان معاملات میں کریں جن میں سفارش کرنا جائز ہے جہاں سفارش کرنا جائز نہیں ، جیسے مقدمات ہیں، یا امتحانی پرچوں کی جانچ کا معاملہ ہے ان جگہوں پر سفارش کرنا بھی جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ سفارش جائزکام کی ہو، ناجائز کام کی نہ ہو، تیسرے یہ کہ سفارش کا انداز مشورے کا ہو، دبائو ڈالنے کا نہ ہو،چوتھے اگرمشورہ اور سفارش نہ مانی جائے تو اس پر کو ئی ناراضگی اورناگواری نہ ہونی چاہئے۔ ان چار چیزوں کی رعایت کے ساتھ اگرسفارش کی جائے گی توسفارش کی وجہ سے کوئی فساد برپا نہیں ہوسکتااور وہ سفارش اجر و ثواب کا سبب ہوگی ان شاء اللہ تعالی۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں اس کی سمجھ عطا فرمائے آمین۔(اصلاحی خطبات جلد اول)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

