Table of Contents
رمضان کے روزے کا فرض ہونا
دوستو ! جان لو کہ رمضان کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ایک ہیں اور اس دین کی مضبوط بنیادوں میں سے ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ * أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍۢ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ…الخ ۔ سورۃ البقرہ: 183-185
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
۔”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔” صحیح بخاری و مسلم۔
رمضان کے روزے فرض ہونے کا اجماع
تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہیں، اور یہ دین کا ایک قطعی معلوم اور ضروری حکم ہے۔ پس جو شخص اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہو جائے گا۔ اس سے توبہ طلب کی جائے، اگر وہ توبہ کر لے اور اس کی فرضیت کو مان لے تو قبول کر لیا جائے گا، ورنہ وہ کافر اور مرتد شمار ہوگا، جسے قتل کر دیا جائے گا، نہ اسے غسل دیا جائے گا، نہ کفن پہنایا جائے گا، نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے گا، نہ اس کے لیے رحمت کی دعا کی جائے گی، اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، بلکہ اسے دور کہیں دفن کیا جائے گا تاکہ لوگ اس کی بدبو سے محفوظ رہیں اور اس کے اہل و عیال بھی اس کے انجام سے متاثر نہ ہوں۔
رمضان کے روزے دو مرحلوں میں فرض کیے گئے
رمضان کے روزے ہجرت کے دوسرے سال فرض کیے گئے، اور رسول اللہ ﷺ نے نو سال تک رمضان کے روزے رکھے۔
روزے کی فرضیت دو مراحل میں ہوئی:۔
پہلا مرحلہ: پہلے مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو روزہ رکھیں یا کسی مسکین کو کھانا کھلا دیں، لیکن روزہ رکھنے کو بہتر قرار دیا گیا۔
دوسرا مرحلہ: بعد میں روزہ رکھنا لازمی کر دیا گیا اور اختیار ختم کر دیا گیا۔
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍۢ ۔ تو جو چاہتا، وہ روزہ نہ رکھتا اور فدیہ دے دیتا، یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی: فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ پس اللہ نے روزے کو واجب کر دیا اور اختیار ختم کر دیا۔
رمضان کے آغاز کا شرعی طریقہ
رمضان کے روزے تبھی فرض ہوتے ہیں جب اس کا مہینہ شروع ہو، اور اس کے آغاز کا ثبوت دو طریقوں سے ہوتا ہے:۔
۔1۔ چاند دیکھنا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب چاند دیکھو تو عید کرو۔”۔ صحیح بخاری و مسلم
۔2۔ شعبان کے مکمل 30 دن مکمل ہونا:اگر چاند نظر نہ آئے تو رمضان شعبان کے تیس دن مکمل ہونے کے بعد شروع ہوگا، کیونکہ قمری مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “اگر چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن مکمل کرو۔” صحیح بخاری و مسلم
چاند کی رویت کے گواہ کی شرائط: گواہ بالغ، عاقل، اور مسلمان ہونا چاہیے۔ وہ شخص قابلِ اعتماد ہو، یعنی نہ تو جھوٹا ہو، نہ جلد بازی کرنے والا، اور نہ ہی نظر کی کمزوری میں مبتلا ہو۔ ایک معتبر مسلمان مرد کی شہادت رمضان کے چاند کے لیے کافی ہے، جبکہ شوال کے چاند کے لیے کم از کم دو مسلمان مرد گواہ ہونے چاہئیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: “لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے، تو آپ ﷺ نے خود روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔”۔ ابو داود، مستدرک حاکم
چاند کا اعلان حکومت کے ذریعے ہونا چاہیے: اگر حکومت کی طرف سے ریڈیو یا دیگر ذرائع سے چاند کا اعلان ہو جائے تو اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے جب کسی معتبر گواہ سے چاند کی خبر لی، تو حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں تاکہ سب لوگ روزہ رکھیں۔
یقین کے بغیر روزہ رکھنا جائز نہیں: اگر چاند نظر نہ آئے، تو محض گمان یا احتیاط کی بنا پر روزہ رکھنا جائز نہیں۔ حضرت عمار بن یاسرؓ فرماتے ہیں: “جس نے شک والے دن (یعنی 30 شعبان) کا روزہ رکھا، اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔” ابو داود، ترمذی، نسائی
رمضان المبارک سے متعلق معلومات اور دیگر مضامین پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/ramadhan_urdu_islamic_guide_free/

