قرآن کریم کی تفسیر میں رائے زنی
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی تحریر سے انتخاب
افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے مسلمانوں میں یہ خطرناک وبا چل پڑی ہے کہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی پڑھ لینے کو تفسیر قرآن کیلئے کافی سمجھ رکھا ہے۔چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے۔ وہ قرآن کریم کی تفسیر میں رائے زنی شروع کردیتا ہے۔بلکہ بعض اوقات عربی زبان کی نہایت معمولی شد بد رکھنے والے لوگبھی نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کی تفسیر شروع کردیتے ہیں۔ بلکہ پرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعہ کرکے اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے لگتے ہیں اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔
خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ انتہائی خطرناک طرز عمل ہے۔جو دین کے معاملے میں نہایت مہلک گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔دنیوی علوم وفنون کے بارے میں ہر شخص اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض انگریزی زبان سیکھ کر میڈیکل سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کرلے تو دنیا کا کوئی صاحب عقل اسے ڈاکٹر تسلیم نہیں کرسکتا اور نہ اپنی جان اس کے حوالے کرسکتا ہے۔جب تک کہ اس نے کسی میڈیکل کالج میں باقاعدہ تعلیم وتربیت حاصل نہ کی ہو۔ اس لئے کہ ڈاکٹر بننے کیلئے صرف انگریزی سیکھ لینا کافی نہیں۔بلکہ باقاعدہ ڈاکٹری کی تعلیم وتربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں ہر شخص اس اصول کو جانتاہے کہ کسی علم و فن کے سیکھنے کا ایک خاص طریقہ اور مخصوص شرائط ہوتی ہے۔جنہیں پورا کئے بغیر اس علم وفن میں اس کی رائے معتبر نہیں سمجھی جاتی۔ تو آخر قرآن وسنت اتنے لاوارث کیسے ہوسکتے ہیں کہ ان کی تشریح و تفسیر کیلئے کسی علم و فن کے حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو اور اس کے معاملے میں جو شخص چاہے رائے زنی شروع کردے؟
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

