قصہ یوسف میں دواہم سبق
قرآن کریم میں جتنے واقعات آئے ہیں محض قصہ بیان کرنے کیلئے نہیں آئے، بلکہ اس سے سبق دینا مقصود ہے، حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ زلیخا نے ان کو پھسلانے کی کوشش کی، اور انہیں زبردست آزمائش کا سامنا ہوا۔
ایک حسین و جمیل عورت ہے۔ چاروں طرف سے دروازے بند کرکے ہر دروازے پر اس نے تالا ڈال دیا، تاکہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے، اور اندر آنے کا بھی کوئی راستہ نہ رہے، اس وقت وہ پیشکش ہی نہیں بلکہ وہ حکم دے رہی ہے کہ آئو! حضرت یوسف علیہ السلام نے پہلے تو زبان سے انکار کیا، لیکن وہ عورت اصرار کرتی رہی یہاں تک کہ اپنی طرف کھینچنے لگی، تو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سے چھوٹ کر دروازوں کی طرف بھاگے ۔ حالانکہ نظر آرہا تھا کہ دروازے بند ہیں، تالے پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے سوچا کہ میرے بس میں اتنا ہے کہ میں یہاں سے بھاگ کر دروازہ تک چلا جائوں، اپنے بس کی حد تک انہوں نے کوشش پوری کرلی، اور وہاں سے بھاگ کر دروازہ تک پہنچ گئے۔
اور پھر اللہ کو پکارا: اے اللہ! میرے بس میں اتنا ہی تھا کہ میں دروازہ تک پہنچ جاتا،اور اس سے اپنے آپ کو بچا لیتا ‘ آگے پھر دروازہ کھولنا اور پھر اس سے بچانا آپ کا کام ہے‘ آپ راستہ کھول دیجئے۔اور پھر اللہ کو بھی پکارا: یا اللہ! بچا لیجئے!۔
جب دروازہ تک پہنچے تو دروازوں کے قفل کھل گئے، تالے ٹوٹ گئے، اور دیکھا کہ زلیخا کا شوہر دروازہ پرکھڑا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ اس لئے بیان کیا ہے کہ سنو! جب بھی ایسی صورتحال پیش آئے کہ تمہارے اندر گناہ کا داعیہ پیدا ہو رہا ہو، صراط مستقیم سے ہٹنے کا داعیہ پیدا ہو رہا ہے، اس وقت دو کام کرو، ایک عزم تازہ کرو کہ میں صراط مستقیم کو نہیں چھوڑوں گا، اور دوسرا جتنی تمہارے بس میں کوشش ہے، وہ کر گزرو، اس کے بعد جب اللہ کو پکارو گے، تو وہتمہاری ضرور مدد کرے گا، تمہیں ضرور صراط مستقیم پر پہنچائے گا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/