قبولیت دعا کی علامت
بعض اوقات جب تکلیف میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اس کے باوجود وہ تکلیف اور پریشانی نہیں جاتی اور دعا قبول نہیں ہوتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی توفیق مل جانا ہی اس بات کی علامت ہے کہ ہماری دعا قبول ہوگئی‘ ورنہ دعا کرنے کی بھی توفیق نہ ملتی اور اب تکلیف پر الگ انعام ‘دعا کرنے پر الگ انعام اور اس دعا کے بعد دوبارہ دعا کی توفیق پر الگ انعام ملے گا لہٰذا یہ تکلیف رفع درجات اور انعامات کا ذریعہ بن رہی ہے۔ لیکن اس پریشانی کو کب دور کرنا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضہ ہے لہٰذا تکلیف میں گلہ شکوہ نہیں ہونا چاہیے البتہ عافیت کی دُعا کرتا رہے۔
اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگولیکن جب کوئی تکلیف آ جائے توصبرکرو اور صبر کا مطلب یہ ہے کہ تکلیف پر گلہ شکوہ نہ کرو۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تکالیف سے پناہ مانگی ہے لیکن جب تکلیف آگئی تو اس کو اپنے حق میں بھی رحمت سمجھا اور ازالے کی دُعا بھی فرمائی ۔
جب اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف دیں تو اس پر اس قدر ضبط کرنا کہ آدمی کے منہ سے آہ بھی نہ نکلے اور تکلیف کا ذرہ برابر بھی اظہار نہ ہو‘ یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ۔ کیا اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے بہادری دکھانا مقصود ہے کہ آپ کو جو کرنا ہے کرلیں ہم تو ویسے کے ویسے ہی رہیں گے (العیاذ باللہ) اس لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا چاہیے۔ تو تکالیف پر نہ شکوہ ہو اور نہ بہادری کا اظہار ہو۔ بلکہ اعتدال اور سنت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے ابراہیم! ہمیں تمہاری جدائی کا بڑا صدمہ ہے‘‘۔ اس میں بندگی کا اظہار ہے کہ اے اللہ! آپ کا فیصلہ برحق ہے لیکن آپ نے یہ تکلیف اس لیے دی ہے کہ میں آپ کے سامنے عاجزی کروں اورآنسو بہائوں۔ لہٰذا سنت یہ ہے کہ گلہ شکوہ نہ ہو اور بہادری بھی نہ ہو‘ بلکہ یہ کہے کہ اے اللہ! میری اس تکلیف کو دور فرما دیجئے۔ یہی مسنون طریقہ ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

