پاکستان کی طرف ہجرت۔ایک سبق آموز واقعہ
مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اپنے مضمون ’’یادیں‘‘ کی پانچویں قسط میں تحریر فرماتے ہیں:۔
والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کیلئے مستقل طور پر دیوبند چھوڑ کر پاکستان جانا بہت سے مسائل کی وجہ سے نہایت مشکل تھا۔
اوّل تو دیوبند میں ان کے مشاغل مختلف نوعیتوں کے تھے جنہیں چھوڑنا آسان نہیں تھا۔
دوسرے ہماری دادی صاحبہ رحمۃ اﷲ علیہا، انہی کے ساتھ رہتی تھیں۔ انہیں دیوبند میں تنہا چھوڑنا بھی مشکل تھا، اور ساتھ لے جانا بھی مشکل، کیونکہ وہ بہت عمر رسیدہ تھیں، اور امن وامان کے لحاظ سے یہ وقت بڑا مخدوش تھا، نیز دو شادی شدہ بیٹیاں ایسی تھیں کہ انہیں ساتھ لے جانا اس وقت ممکن نہیں تھا، اور اس دور میں اولاد کے کسی دوسرے ملک میں رہنے کا تصور بڑا تکلیف دہ ہوتا تھا۔
تیسرے دارالعلوم سے مستعفی ہونے کے بعد گھریلو اخراجات کے لئے آمدنی کا واحد ذریعہ تجارتی کتب خانہ دارالاشاعت تھا، اور اسے ان فساد زدہ حالات میں پاکستان منتقل کرنا کارے دارد۔ چوتھے اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا، اور پاکستان جانے والے مہاجرین کو قدم قدم پر آگ اور خون کی ندیاں عبور کرنی پڑتی تھیں۔ پانچویں پاکستان میں آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا۔ اس لئے کافی دن خاندان میں یہ مسئلہ زیر بحث رہا کہ پاکستان جانا مناسب ہے یا نہیں؟ حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ جو پاکستان بننے سے پہلے دہلی سیکرٹریٹ کی مسجد میں خطیب تھے۔
حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ کے تقریباً ساتھ ساتھ پاکستان چلے گئے تھے۔ علامہ عثمانی، رحمۃ اﷲ علیہ نے ان کو، حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو دعوت دینے کے لئے دیوبند بھیجا۔ خاندان کے بہت سے رشتہ داروں کی رائے مذکورہ بالا حالات کی وجہ سے اس کے خلاف تھی لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ جس پاکستان کے بنانے میں اپنی جدوجہد اب تک صرف کی ہے۔ اس کی صحیح بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے اہم کام میں بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری ہے۔
یہ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ، کا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی حوصلہ عطا فرمایا تھا، اس لئے انہوں نے تمام مسائل کو نظرانداز فرما کر اپنے گھر والوں سے فرمادیا کہ وہ ہجرت کی تیاری کریں۔ مجھے اپنے بچپن کی وجہ سے مسائل کا تو کچھ علم نہیں تھا، لیکن میں گھر کی مجموعی فضا پر خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کا اندازہ کرسکتا تھا، حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اب تک اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے جدی مکان کے ایک چھوٹے سے کمرے میں گزارا تھا، اور اب چند سال پہلے ہی انہوں نے وہ مکان بڑے شوق و ذوق سے تعمیر کروایا تھا جس میں وہ اب مقیم تھے۔ دوسری طرف انہیں باغبانی کا بھی شوق تھا، جس کے لئے انہوں نے جی ٹی روڈ کے قریب ایک باغ لگایا تھا، اور جب کبھی انہیں اپنی علمی مشغولیات سے کچھ فرصت ملتی، وہ عموماً عصر کے بعد اس باغ میں تشریف لے جاتے۔ کئی مرتبہ میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس باغ میں انہوں نے خاص طور پر آم کے پودے لگائے ہوئے تھے، اور اس سال ان پر پہلا پھل آرہا تھا۔ وہاں انہوں نے ایک کمرہ بھی بنوادیا تھا جہاں کبھی کبھی تمام گھر والے جمع ہوکر باغ کی شاداب فضا سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ان تمام چیزوں کو ایک دم سے چھوڑ کر چلے جانا یقینا بہت صبر آزما تھا کیونکہ یہ یقین تھا کہ چھوڑ کر جانے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ساری جائیدادیں حکومت کی تحویل میں چلی جائیں۔
لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے جب چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تو فرمایا کرتے تھے کہ ’’جس دن میں نے گھر اور باغ سے قدم نکالا، یہ ساری جائیدادیں میرے دل سے نکل گئیں۔‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ زہد کی یہ تفسیر جو بعد میں کتابوں میں پڑھی ، اور بزرگوں سے سنی کہ انسان دُنیا کے مال و دولت سے دل نہ لگائے، اور مال ہو، مگر اس کی محبت دل میں بسی ہوئی نہ ہو، اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہم نے اپنے والد ماجد کی زندگی میں ہر مرحلے پر دیکھا۔ رَحِمَہُ اﷲ تَعَالٰی۔(البلاغ مارچ 2018ء)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/