نمازی کے آگے سے گزرنے کی تفصیل
از افادات: شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ
سوال:۔ نمازی کے سامنے سے گزرنے کی جیسا کہ حدیث شریف میں سخت ممانعت آئی ہے، حسب ذیل صورتوں میں گزرنے والے کیلئے کیا حکم ہے؟
الف:۔ اگر نمازی بحالت قیام یا قومہ سجدہ گاہ پر نظر کئے ہوئے ہے تو ضرورت مند کتنا فاصلہ چھوڑ کر گزرے؟
ب:۔ اگر اس کی نظر بحالت مذکورہ سجدہ گاہ سے آگے پڑ رہی ہو؟
ج:۔ اگر نمازی رکوع یا سجدے میں ہے؟
د:۔ اس مسئلے میں چھوٹی اور بڑی مسجد کا الگ الگ کیا حکم ہے؟ اور کم از کم کتنی بڑی مسجد کو ’’مسجد کبیر‘‘ کہا جائے گا؟
جواب:۔
الف:۔ اگر مسجد چھوٹی سی ہے تو نمازی کے آگے سے بغیر سترہ کے بالکل نہیں گزرنا چاہئے اور اگر مسجد بڑی ہے یا کھلی جگہ میں نماز پڑھ رہا ہے تو اتنے آگے سے گزرنا جائز ہے کہ اگر نماز پڑھنے والا سجدے کی جگہ نظر رکھے تو اسے گزرنے والا نظر نہ آتا ہو، جو تقریباً سجدے کی جگہ سے دو گز کے فاصلے تک ہوتا ہے۔
ب، ج:۔ رکوع، سجدہ، قیام، قومہ سب کا ایک ہی حکم ہے اور قیام کی حالت میں اگر نماز پڑھنے والا سجدے کی جگہ سے آگے دیکھ رہا ہو تب بھی گزرنے کے لئے فاصلہ اتنا ہی معتبر ہوگا جو اوپر بیان کیا گیا۔
د:۔ تقریباً چالیس ہاتھ سے کم رقبے کی مسجد ’’چھوٹی‘‘ کہلائے گی، اور اس سے زائد بڑی۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

