ملک کے قوانین کی پابندی کریں گے
میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ اللہ تعالیٰ ا ن کے درجات بلند فرمائے آمین۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ وعدہ ‘‘ صرف زبانی نہیں ہوتا بلکہ وعدہ عملی بھی ہوتاہے مثلاً ایک شخص ایک ملک میں بطور باشندے کے رہتا ہے تو وہ شخص عملاً اس حکومت سے وعدہ کرتاہے کہ میں آپ کے ملک کے قوانین کی پابندی کروں گا لہٰذا اب اس شخص پر اس وعدے کی پابندی کرنا واجب ہے جب تک اس ملک کا قانون اسکو کسی گناہ پر مجبور نہ کرے ۔اسی طرح جب آپ ویزہ لے کر دوسرے ملک جاتے ہیںچاہے وہ غیر مسلم ملک ہو مثلاً امریکہ یا یورپ ویزا لے کرچلے گئے ، یہ ویزہ لینا عملاً ایک وعدہ ہے کہ ہم اس ملک کے قوانین کی پابندی کریں گے، جب تک وہ قانون کسی گناہ پرمجبور نہ کرے ، ہاں اگر وہ قانون کسی گناہ پرمجبورکرے تو پھراس قانون کی پابندی جائز نہیں ۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرلی تو اس میں گناہ کی کیا بات ہے ؟ یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ آدمی خلاف ورزی بھی کررہا ہے اورقانون کی گرفت میں بھی نہیں آرہا ہے۔یاد رکھئے ! یہ کئی اعتبار سے گناہ ہے، ایک تو اس حیثیت سے گناہ ہے کہ یہ وعدہ کی خلاف ورزی ہے ، دوسرے اس حیثیت سے بھی گناہ ہے کہ یہ قوانین تو اس لئے بنائے گئے ہیں تاکہ نظم و ضبط پیدا ہو، اور اس کے ذریعہ سے ایک دوسرے کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کے راستے بند ہوں، لہٰذا اگر آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی اوراس سے کسی کو نقصان پہنچ گیا تو اس نقصان کی دنیا و آخرت کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔
لہٰذا بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم وعدہ خلافی سمجھتے ہیں اوربہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم وعدہ خلافی نہیں سمجھتے ، مگر وہ وعدہ خلافی اورگناہ کے اندرداخل ہیں ان سے پرہیزکرنے کی ضرورت ہے ، دین ہماری زندگی کے ہر شعبے کے اندر داخل ہے ان تمام چیزوں کا لحاظ نہ کرنا دین کے خلاف ہے۔(اصلاحی خطبات جلد سوم)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

