معاشرت کے احکام کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے ’’معاشرت‘‘ کے احکام بیان کرنے کا بہت اہتمام فرمایا ہے‘ مثلاً معاشرت کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی دوسرے شخص کے گھر میں جائو تو اندر داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لو کہ میں اندر آ سکتا ہوں یا نہیں؟ اس اجازت لینے کو عربی زبان میں ’’استئذان ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’استئذان‘‘ کے احکام بیان کرنے کیلئے قرآن کریم میں پورے دو رکوع نازل فرمائے جبکہ دوسری طرف قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا حکم شاید باسٹھ جگہ آیا ہے لیکن نماز کس طرح پڑھی جائے؟ اس کی تفصیل قرآن کریم نے نہیں بتائی۔
بلکہ اسکو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کرنے پر چھوڑ دیا۔ لیکن اجازت طلب کرنے کے مسئلہ کی تفصیل کو قرآن کریم نے خود بیان فرمایا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کرنے پر نہیں چھوڑا۔ اسکے علاوہ قرآن کریم میں سورۃ الحجرات کا ایک بہت بڑا حصہ معاشرتی احکام کے بیان پر مشتمل ہے۔
لہٰذا ایک طرف تو معاشرتی احکام کی اتنی اہمیت ہے لیکن دوسری طرف روزمرہ کی زندگی میں ہم نے ان احکام پر عمل کو چھوڑ رکھا ہے اور ان احکام کا خیال نہیں کرتے۔
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر تمہیں صوفی بننا ہے یا عابد زاہد بننا ہے تو اس مقصد کے لئے بہت ساری خانقاہیں کھلی ہیں وہاں چلے جائو اگر انسان بننا ہے تو یہاں آ جائو۔ اس لئے کہ یہاں تو انسان بنایا جاتا ہے۔ مسلمان بننا اورعالم بننا اور صوفی بننا تو بعد کی بات ہے، پہلے انسان تو بن جائو۔
دیکھئے نوافل مستحبات ذکر و اذکار اور تسبیحات کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کرو گے تو ان شاء اللہ آخرت میں اس کا ثواب ملے گا اور اگر نہیں کرو گے تو آخرت میں یہ پکڑ نہیں ہوگی کہ فلاں نفل کیوں نہیں پڑھی؟
البتہ یہ سب فضیلت والے کام ہیں۔۔۔ ضرور کرنے چاہئیں اور کرنے پر آخرت میں ثواب ملے گا لیکن نہ کرنے پر گرفت نہیں ہو گی۔۔۔ دوسری طرف اگر تمہاری ذات سے دوسرے کو تکلیف پہنچ گئی تو یہ گناہ کبیرہ ہو گیا اب اس کی آخرت میں پکڑ ہو جائے گی کہ ایسا کام کیوں کیا تھا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

