میت کے گھر کھانا بھیجنا اور ایصال ثواب کا طریقہ
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ اپنے خطبات میں فرماتے ہیں
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی کے گھر میں صدمہ ہو تو دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ اس کے گھر میں کھانا تیار کرکے بھیجیں۔
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ غزوۂ موتہ کے موقع پر شہید ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا بناکر بھیجو‘ اس لیے کہ وہ بیچارے مشغول ہیں اور صدمہ کے اندر ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ اس کے لیے کھانا بناؤ جس کے گھر صدمہ ہوگیا تاکہ وہ کھانا پکانے میں مشغول نہ ہو کہ ان کو صدمہ ہے۔ آج کل اُلٹی گنگا یہ بہتی ہے کہ جس کے گھر صدمہ ہے‘ وہ کھانا تیار کرے اور نہ صرف یہ کہ کھانا تیار کرے بلکہ دعوت کرے‘ شامیانے لگائے‘ دیگیں چڑھائے اور اگر دعوت نہیں دے گا تو برادری میں ناک کٹ جائے گی۔ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ جو بیچارہ مرگیا ہے اس کو بھی نہیں بخشتے‘ اس کو بھی بُرا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ ’’مرگیا مردود‘ نہ فاتحہ نہ درُود‘‘۔
اگر مرنے والے کے گھر میں دعوت نہ ہوئی تو پھر اس کی بخشش نہیں ہوگی‘ معاذ اللہ اور پھر وہ دعوت بھی مرنے والے کے ترکے سے ہوگی جس میں اب سارے ورثاء کا حق ہوگیا‘ ان میں نابالغ بھی ہوتے ہیں اور نابالغ کے مال کو ذرّہ برابر چھونا شرعاً حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے‘ پھر بھی یہ سب کچھ ہورہا ہے اور جو شخص یہ سب نہ کرے وہ مردود ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/