کوئی بدعت اچھی نہیں ہوتی
اس روئے زمین پر بد ترین کام وہ ہیں جو نئے نئے طریقے دین میں ایجاد کئے جائیں، حدیث میں ’’ بد ترین کام ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ بدعت ایک ایسی چیزہے جوایک لحاظ سے ظاہری گناہوں سے بھی بدتر ہے اس لئے کہ ظاہری فسق و فجور اورگناہ وہ ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا وہ ان کو برا سمجھے گا،کوئی مسلمان اگر کسی گناہ میں مبتلا ہے مثلاً شراب پیتا ہے، بدکاری کرتا ہے، جھوٹ بولتاہے، غیبت کرتا ہے، اس سے اگر پوچھا جائے کہ یہ کام تمہارے خیال میں کیسے ہیں ؟ جواب میں یہی کہے گا یہ کام ہیں تو برے لیکن میں کیا کروں، میں مبتلا ہوگیا۔ لہٰذا ان برائیوں کو کرنے والا برا سمجھے گا اورجب براسمجھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی نہ کبھی توبہ کی توفیق بھی عطا فرما دیں گے۔
لیکن بدعت یعنی جو چیز دین میں نئی ایجاد کی گئی ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ حقیقت میں تو وہ گناہ ہوتی ہے لیکن جو شخص اس بدعت کو کررہاہوتاہے وہ اس کو برا نہیں سمجھتا، وہ تو یہ کہتا ہے کہ یہ تو بہت اچھا عمل ہے، اور دوسرا کوئی اگراس سے یہ کہے کہ یہ بری بات ہے تو بحث کرنے کو تیار ہوجاتاہے اوراس سے مناظرہ کرنے کو تیار ہوجاتا ہے کہ اس میں کیا خرابی اور کیا حرج ہے اورجب ایک شخص گناہ کو گناہ سمجھتا ہی نہیں ہے اوربرائی کو برائی سمجھتا ہی نہیںہے تو اس کے نتیجے میں وہ گمراہی میں اور زیادہ پختہ ہوجاتا ہے ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ شر الامور ‘‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ جتنے برے کام ہیں ان میں سب سے بد تر کام بدعت ہے جو دین میں ایسانیا طریقہ ایجاد کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے سے مختلف ہو، اورپھر آگے اس کی وجہ بھی بتادی کہ ہربدعت گمراہی ہے ، لہٰذا جو شخص کسی بدعت کے اندر مبتلا ہے وہ لازماً گمراہی کے اندر مبتلا ہے۔
ایک ہوتی ہے عملی کوتاہی، یعنی ایک شخص کسی عملی کوتاہی کے اندرمبتلاہے ، اس سے غلطیاں ہورہی ہیں ، گناہ سرزد ہورہے ہیں ۔ اورایک ہوتی ہے اعتقادی گمراہی کہ کوئی شخص کسی ناحق بات کو حق سمجھ رہا ہے اورگناہ کو ثواب سمجھ رہاہے ، کفر کو ایمان سمجھ رہا ہے پہلی چیز یعنی عملی کوتاہی کا مداوا تو آسان ہے کہ کبھی نہ کبھی توبہ کرلے گا تو معاف ہوجائے گی ، لیکن جو شخص گناہ کو ثواب سمجھ رہاہو، اس کی ہدایت بہت مشکل ہے اسی لئے آپ نے فرمایا کہ بدترین گناہ بدعت کاگناہ ہے اسی لیے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بدعت سے اتنا بھاگتے تھے کہ کوئی حد نہیں۔
بدعت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ آدمی خود دین کاموجد بن جاتا ہے، حالانکہ دین کا موجد کون ہے ؟ صرف اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو دین بنایا وہ ہمارے لئے قابل اتباع ہے ، لیکن بدعت کرنے والا خوددین کا موجد بن جاتاہے اوریہ سمجھتا ہے کہ دین کاراستہ میں بنا رہاہوں اور در پردہ اس بات کا دعویٰ کرتاہے کہ جو میں کہوں وہ دین ہے اوراللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا جو راستہ بتایا اورجس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمل کیا، میںان سے بڑھ کر دیندارہوں میں دین کو ا ن سے زیادہ جانتا ہوں تو یہ شریعت کی اتباع نہیں ہے بلکہ اپنی خواہش نفس کی اتباع ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمارے اورآپ کے دلوں میں یہ بات بٹھا دے کہ دین اصل میں اللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نام ہے، اپنی طرف سے کوئی بات گھڑنے کا نام دین نہیں ہے۔
ایک اوربات عرض کردوں، جس کے بارے میں لوگ بکثرت پوچھا کرتے ہیں ،و ہ یہ ہے کہ جب ہرنئی بات گمراہی ہے تو یہ پنکھا بھی گمراہی ہے ، یہ ٹیوب لائٹ بھی گمراہی ہے، یہ بس بھی، یہ موٹر بھی گمراہی ہے اس لئے کہ یہ چیزیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھیں ، بعد میں پیدا ہوئی ہیں،ان کے استعمال کوبدعت کیوں نہیں کہتے ؟
خوب سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے بدعت کو جو ناجائز اورحرام قراردیا ، یہ وہ بدعت ہے جو دین کے اندر کوئی نئی بات نکالی جائے ، دین کا جز اوردین کا حصہ بنالیا جائے کہ یہ بھی دین کا حصہ ہے مثلاً یہ کہنا کہ ایصال ثواب اس طرح ہوگا ، جس طرح ہم نے بتادیا یعنی تیسرے دن تیجہ ہوگا،پھردسواں ہوگا، پھر چہلم ہوگااور جو اس طریقے سے ایصال ثواب نہ کرے وہ مردود ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک بدعت حسنہ، اورایک بدعت سیئہ، یعنی بعض کام بدعت توہوتے ہیں لیکن اچھے ہوتے ہیں اوربعض کام بدعت بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی ۔ لہٰذا اگر کوئی اچھاکام شروع کیا جائے تو اس کو بدعت حسنہ کہاجائے گا اوراس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
خوب سمجھ لیجئے کہ بدعت کوئی اچھی نہیں ہوتی، جتنی بدعتیں ہیں وہ سب بری ہیں، اصل بات یہ ہے کہ بدعت کے دو معنی ہوتے ہیں۔ ایک لغوی اورایک اصطلاحی ،اگرآپ لغت اورڈکشنری میں بدعت کے معنی دیکھیں تو آپ کو نظرآئے گا کہ لغت میں اس کے معنی نئی چیز کے ہیں لہٰذا جو بھی نئی چیز ہے اس کو لغوی اعتبار سے بدعت کہہ سکتے ہیں ، مثلاً یہ پنکھا، یہ بجلی ، یہ ٹرین اوریہ ہوائی جہاز وغیرہ لغت اورڈکشنری کے اعتبار سے سب بدعت ہیں کیونکہ یہ چیزیں ہمارے دور کی ہی پیداوار ہیں مسلمانوں کے اولین دو رمیں ان کا وجود نہ تھا یہ سب نئی چیزیں ہیں۔
لیکن شریعت کی اصطلاح میں ہر نئی چیز کو بدعت نہیں کہتے بلکہ بدعت کے معنی یہ ہیں کہ دین میں کوئی نیا طریقہ نکالنا اوراس طریقہ کو از خود مستحب لا یازم یا مسنون قراردینا جس کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین نے مسنون قرار نہیں دیا، اس کو بدعت کہیں گے اس اصطلاحی معنی کے لحاظ سے جن چیزوں کو بدعت کہا گیا ہے ان میں سے کوئی بدعت اچھی نہیںہوتی اورایسی کوئی بدعت ’’ حسنہ ‘‘ نہیں ہے بلکہ ہر بدعت بری ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم کو بدعت سے اجتناب کی توفیق عطا ء فرمائے اوردین کی صحیح فہم عطا ء فرمائے آمین۔(اصلاحی خطبات جلد اول)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

