ہر فرد اپنی فکر کرے
اسلامی تعلیمات کا مزاج یہ ہے کہ وہ نہ صرف ہر فرد کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرتی ہیں بلکہ دل میں اصل فکر ہی یہ پیدا کرتی ہیں کہ کہیں مجھ سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی تو نہیں ہورہی؟
جب یہ فکر کسی شخص میں پیدا ہوجاتی ہے تو اس کا اصل مسئلہ حقوق کے حصول کے بجائے فرائض کی ادائیگی بن جاتا ہےاگر یہ فکر معاشرے میں عام ہوجائے تو سب کے حقوق خودبخود ادا ہونے شروع ہوجائیں۔ اور حق تلفیوں کی شرح گھٹتی چلی جائے اس لئے کہ ایک شخص کا فریضہ دوسرے کا حق ہے اور جب پہلا شخص اپنا فریضہ ادا کرے گا تو دوسرے کا حق خودبخود ادا ہوجائے گا۔ شوہر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا ہوں گے، بیوی اپنے فرائض ادا کرے تو شوہر کے حقوق ادا ہوں گے افسر اپنے فرائض بجالائے تو ماتحت کو اس کے حقوق ملیں گے، اور ماتحت اپنے فرائض بجا لائے تو افسر کو اس کے حقوق ملیں گے۔ غرض دو طرفہ تعلقات کی خوشگواری کا اصل راز یہی ہے کہ ہر فریق اپنی ذمہ داری محسوس کرکے اس سے ٹھیک ٹھیک عہدہ برآ ہو، تو دونوں میں سے کسی کو حق تلفی کی کوئی جائز شکایت پیدا نہیں ہوسکتی۔
لیکن یہ فکر معاشرے میں اس وقت تک عام نہیں ہوسکتی جب تک اس میں فکر آخرت کی آبیاری نہ کی جائے، آج ہم عقیدۂ آخرت پر ایمان رکھنے کا زبان سے خواہ کتنا اعلان کرتے ہوں، لیکن ہماری عملی زندگی میں اس عقیدے کا کوئی پرتو عموماً نظر نہیں آتا۔ ہماری ساری دوڑ و دھوپ کا محور یہ ہے کہ روپے پیسے اور مال و اسباب کی گنتی میں اضافہ کس طرح ہوا؟ یہی بات زندگی کا اصل مقصد بن چکی ہے، اور یہی ہماری ساری معاشی سرگرمیوں کا آخری مطمح نظر ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

