گناہ کوگناہ سمجھیں
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے ا یک بیان سے انتخاب
بعض مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی گناہ کیے جارہا ہے، کیے جارہا ہے اور فکر ہی نہیں ہوتی، احساس ہی نہیں کہ میں کوئی برا کام کررہا ہوں اور میں کوئی ناجائز کام کررہا ہوں۔ یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ کام مجھے جہنم کی طرف لے جارہا ہے تو یہ غفلت اور بے فکری بہت ہی بری بلا ہے۔ بعض لوگ گناہ کو معمولی سمجھتے ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ وہ مؤمن جو اب تک گناہ کا عادی نہیں ہے وہ گناہ کو ایسا سمجھتا ہے جیسے پہاڑ اس کے سر پر ٹوٹنے والا ہے اور فاسق و فاجر گناہ کو اتنا ہلکا اور معمولی سمجھتا ہے جیسے کوئی مکھی ناک پر آکر بیٹھ گئی اور اُس نے ہاتھ مار کر اُس کو اُڑا دیا، یعنی وہ گناہ کو بہت معمولی سمجھتا ہے اور اس کے کرنے کے بعد اس پر اس کو کوئی ندامت اور شرمندگی نہیں ہوتی۔
دیکھو! ہم اپنی زندگی میں بہت سے ایسے کاموں میں مبتلا ہیں، اور اُن کا اتنا زیادہ رواج ہوگیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اُن کی خرابی اور ان کی تباہ کن کیفیت کا ادراک بھی باقی نہیں رہا۔۔۔ مثلاً نامحرموں کی فحش تصویریں چھپی ہوئی ہیں جو اخبار آئے گا، اس کے اندر ضرور تصویریں ہوں گی تو جب آدمی ہر روز صبح شام ان کو دیکھے گا اور دیکھتا رہے گا تو ان کی برائی اس کے دل سے نکل جائے گی کیوں کہ یہ تو معمول کی بات ہوگئی۔۔۔ لہٰذا اُس کی برائی ختم ہوگئی۔۔۔ پہلے اگر کبھی اُس گناہ سے بچنے کی فکر ہوتی تھی، اس گناہ کا احساس ہوتا تھا تو رفتہ رفتہ اب وہ دل سے غائب ہوگیا۔۔۔(العیاذ باللہ)
بعض گناہ ایسے ہیں کہ اچھے خاصے لوگوں کو بھی یہ احساس نہیں کہ ہم گناہ کررہے ہیں۔ مثلاً ایک عام وباء پھیلی ہوئی ہے کہ بلاتحقیق بات کو سن کر آگے چلتا کردینا۔کسی شخص کے بارے میں کوئی بات سنی کہ فلاں یوں کرتا ہے، اب تحقیق تو کی نہیں، بس اس سننے کی بنیاد پر بات کو آگے چلتا کردیا۔
ہم میں سے کتنے لوگ بلاوجہ غیبت کے گناہ میں مبتلا ہیں۔ ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ غیبت کتنی کثرت سے ہورہی ہے، صبح و شام ہورہی ہے، ہر مجلس میں ہورہی ہے۔چنانچہ اس وجہ سے اس کی برائی کا احساس، اس کے گناہ ہونے کا احساس مٹ رہا ہے کہ یہ کتنی تباہ کن چیز ہے جس میں ہم مبتلا ہیں۔۔۔ توبہ کی ابتداء یعنی پہلا قدم یہ ہے کہ برائی کو برائی سمجھو اور یہ سمجھو کہ یہ جہنم کی طرف لے جانے والی چیز ہے۔ پہلے اس کا ادراک کرو۔
کسی بھی مسلمان کو کسی بھی طرح کی تکلیف پہنچانا گناہ کبیرہ اور بالکل حرام ہے۔
حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تکلیف صرف یہی نہیں ہے کہ کسی کو مار دیا اور تکلیف پہنچ گئی بلکہ تکلیف پہنچانے کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی جملہ ایسا کہہ دیا کہ جس سے اُس کا دل ٹوٹ گیا۔یہ بھی تکلیف پہنچانا ہے۔
اسی طرح کوئی ایسا کام کرلیا جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔ مثلاً ہم دس آدمی ایک ساتھ رہتے ہیں اور مشترک استعمال کی کوئی ایک چیز ہے جس کی ایک جگہ مقرر ہے اور وہ وہاں پر رکھی جاتی ہے۔تاکہ جب کسی کو ضرورت پیش آئے تو وہاں سے اُس کو اُٹھا لے۔اب اگر آپ نے وہ چیز اُٹھا کر کسی ایسی دوسری جگہ پر رکھ دی جس کا دوسروں کو پتہ نہیں ہے اور دوسرے آدمی کو ضرورت پیش آئی اور اُس نے وقت پر وہاں وہ چیز نہ پائی تو اُس کو جو تکلیف پہنچی کہ وہ بے چارہ پریشان ہوا کہ کہاں گئی۔وہ تلاش کررہا ہے۔یہ ایذاء آپ نے اس کو پہنچائی۔ یہ ایذاء مسلم ہے۔کوئی اس کو گناہ سمجھتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے تھوڑی سی بداخلاقی کا مظاہرہ کردیا ہے ۔حالانکہ یہ گناہ ہے۔
مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ آپ مصافحہ کو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دو کہ مصافحہ کرنا سنت ہے لیکن مسلمان کو ایذاء پہنچانا، یہ کیا ہے؟ یہ گناہ کبیرہ ہے۔اکثر بزرگوں کو سلام کرنے کے لئے لوگ دس آدمیوں کو تکلیف پہنچا کر مصافحہ کرتے ہیں۔(تربیتی بیانات از شیخ الاسلام)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/