فحاشی کی روک تھام کے لیے طریقہ کار
ہماری نظر میں فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ ملت کا درد رکھنے والے اصحاب صرف اس ایک انسداد فواحش کے مقصدکو لے کھڑے ہوں ٗ اوراسی کو اپنی سوچ بچار اور جدوجہد کا موضو ع بنائیں۔ دنیا میں چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لئے بڑی بڑی انجمنیں اورجماعتیں قائم ہیں لیکن کوئی ایسی انجمن نظر نہیں آتی جوخالص انسداد فحاشی کے کام کر رہی ہو۔ اگر کوئی انجمن قائم ہو جائے اور اس کے اصحاب روزانہ کچھ وقت فارغ کرکے اس مقصد میں صرف کریں تو ابھی اصلاح کی کافی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اس انجمن کا طریق کار ہماری نظروں میں حسب ذیل ہونا چاہئے۔
۔(ا)۔ عوام میں فحاشی و عریانی کے خلاف مدافعانہ بیدارکرنا اس غرض کے لئے تقریروں اور مذاکروں کا انعقاد اور تبلیغی لٹریچر کی تقسیم۔
۔(۲)۔ اخبارات کے مدیروں سے ملاقات کرکے انہیں اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ اپنے جرائد میں فحش تصویروں ٗ عریاں اشتہارات اورغیر اخلاقی خبروں اور مضامین کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ مدیرانِ عائد میں غالباً اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہیں ذاتی طور پر فحاشی کی ترویج کا شوق نہیں ٗ لیکن وہ بے سوچے سمجھے زمانے کی رو پر بہہ رہے ہیں اور اگر انہیں افہام و تفہیم کے ذریعہ قائل کیا جاسکے۔ تو شاید ان کے دل میں کوئی احساس پیدا ہو اور وہ اپنی اس روش کو بدل سکیں۔
۔(۳)۔ جو اخبارات اپنی روش سے باز نہ آئیں ٗ عوام میں ان کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی جائے۔
۔(۴)۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذمہ داروں سے معزز شہریوں کے وفود ملاقات کریں اور انہیں فحاشی و بے حیائی کے پروگراموں سے روکنے کی کوشش کی جائے۔
۔(۵)۔ عوامی وفود حکومت کے ذمہ داروں کے پاس پہنچیں اور انہیں اس سنگین صورت حال کے خلاف اپنے جذبات سے آگاہ کریں۔ نشرواشاعت کے ذرائع سے ہر معاملے میں حکومت کی پالیسی کا رخ دیکھتے اور اس کے مطابق اپنے عمل کا ڈھانچہ تیار کرتے ہیں۔ موجودہ بے لگامی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ان کو اس بات کا یقین ہے کہ حکومت اس قسم کے اقدامات کو ناپسند نہیں کرتی اس کے برخلاف اگر انہیں یہ احساس دلایاجائے کہ فحاشی وعریانی کا یہ انداز حکومت کی پالیسی کے خلاف ہے تو اس بے لگام ذہنیت میں ضرور کمی آئے گی۔
۔(۶)۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان سے ملاقات کرکے انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ’’ انسداد فواحش‘‘ کے لئے ایک جامع قانون اسمبلی کے ذریعہ منظور کرائیں جس کے ذریعہ ملک بھر میں عریانی و فحاشی کے تمام اقدامات پر پابندی لگائی جاسکے۔
۔(۷)۔ عوام میں اس بات کی تحریک چلائی جائے کہ وہ ٹیلی ویژن کے ایسے پروگراموں کا قطعی بائیکاٹ کریں گے جو شرم و حیاء کی روایات کے خلاف ہیں۔
یہ کام ایک دو روز میں پورا ہوجانے والا نہیں ہے۔ اس کے لئے مسلسل جدوجہد متواتر عمل اور مستقل سوچ بچارکی ضرورت ہے۔ جب تک کوئی معین جماعت اس کام کے لئے کھڑی نہیں ہوگی۔ اس وقت تک اس کی اہمیت محسوس کرنے والے حضرات بھی اسے آج سے کل اور کل سے پرسوں پر ٹلاتے رہیں گے لیکن یہ ضروری ہے کہ جو جماعت یا انجمن یہ کام لے کراٹھے اس پر کوئی سیاسی چھاپ نہ ہو اس میں ہرشعبہ زندگی کے افراد شامل ہوں اور وہ صرف اس محدود کام کواپنا محور و مقصد بنا کرسرگرم ہو۔ کام شروع کرنے کے بعد خود اس کے نئے نئے راستے نظر آئیں گے اوردل میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا شوق ٗ اسلام کے لئے خلوص اور ملت کا سچا درد ہو تو ایسی کوششں رائیگاں نہیں جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ کچھ حساس دلوں میں اس کام کی اہمیت پیدا فرمادے اور وہ وقت کی اس اہم ضرورت کو پورا کرسکیں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/