ایک نیک عمل کے بعد دوسرے نیک عمل کی توفیق

ایک نیک عمل کے بعد دوسرے نیک عمل کی توفیق

حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ایک نیک عمل کے بعد دوبارہ اسی نیک عمل کی توفیق ہوجائے تو سمجھ لو کہ پہلا عمل قبول ہوگیا اگر پہلا عمل قبول نہ ہوتا دوسری بار عمل کی توفیق نہ ملتی۔ مثلاً ظہر کی نماز آپ نے پڑھی اور پھر عصر کی نماز پڑھنے کی توفیق ہوگئی تو سمجھ لو کہ ظہر کی نماز قبول ہوگئی۔ اگر ظہر کی نماز قبول نہ ہوتی تو عصر کی نماز پڑھنے کی توفیق نہ ملتی۔ گزشتہ کل آپ نے روزہ رکھا تھا آج پھر رکھ لیا تو سمجھ لو کہ گزشتہ کل کا روزہ قبول ہوگیا اگر وہ روزہ قبول نہ ہوتا تو دوبارہ روزہ رکھنے کی توفیق نہ ملتی۔ بہر حال! انسان عمل کرتا رہے عمل کرنا نہ چھوڑے اور عمل کرکے اس بات پر خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کی توفیق عطا فرمائی اور جب توفیق عطا فرمائی ہے تو ان شاء اللہ نوازنے کا ارادہ بھی فرمایا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک عمل کا ایک نقد فائدہ تو یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے رجا اور امید بندھ جاتی ہے۔نیک عمل کا دوسرا نقد فائدہ تعلق مع اللہ کا پیدا ہونا ہے تم جو بھی نیک عمل کرو گے‘ وہ نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں اضافہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھائے گا اور تمام کامیابیوں کی جڑ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا مضبوط ہونا ہے۔ انسانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ اگر ایک انسان دوسرے انسا ن سے ملاقات کرے تو ایک حد تک تو ملاقات کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور تعلق میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ایک حد ایسی آجاتی ہے کہ انسان زیادہ ملاقات کرنے سے زچ ہوجاتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ یہ شخص تو ہر وقت سر پر کھڑا رہتا ہے۔ آخر کار اس کو جھڑک دے گا کہ تو نے تو مجھے پریشان کررکھا ہے۔
لیکن اللہ جل شانہ کا معاملہ یہ ہے کہ جتنی مرتبہ ملاقا ت کرو گے‘ اتنا ہی تعلق میں اضافہ ہوگا۔ ایک حدیث میں حضور اقد س صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان اللہ لا یمل حتی تملوا ۔اللہ تعالیٰ تمہاری بار بار ملاقات کرنے سے نہیں اکتاتے حتیٰ کہ تم خود ہی اکتا جائو۔ لہٰذا جتنی عبادت چاہو کر۔ ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ سے تعلق میں اضافہ کا سبب ہے۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more