ایصال ثواب کا طریقہ
کسی مُردہ کو ایصالِ ثواب کرنا بڑی فضیلت کی چیز ہے، جو شخص کسی مرنے والے کو ایصالِ ثواب کرے تو اس کو دگنا ثواب ملتا ہے۔
ایک اس عمل کو کرنے کا ثواب اور دوسرے ایک مسلمان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا ثواب لیکن شریعت نے ایصالِ ثواب کے لیے کوئی طریقہ مقرر نہیں کیا کہ ایصالِ ثواب صرف قرآن شریف پڑھ کر ہی کرو یا صدقہ کرکے کرو یا نماز پڑھ کر کرو بلکہ جس وقت جس نیک کام کی توفیق ہو جائے۔
اس نیک کام کا ایصالِ ثواب جائز ہے، تلاوت کلام پاک کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں، صدقہ کا بھی کرسکتے ہیں، نفلی نماز پڑھ کر اس کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں۔ ذکر و تسبیح کا بھی کرسکتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کوئی کتاب لکھی ہے اور کوئی تصنیف و تالیف کی ہے اس کا بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی وعظ و نصیحت کی ہے تو اس کا بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ جتنے بھی نیک کام ہیں سب کا ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔
اور اسی طرح شریعت نے ایصالِ ثواب کیلئے کوئی دن مقرر نہیں کیا کہ فلاں دن کرو اور فلاں دن نہ کرو بلکہ جس وقت اس شخص کا انتقال ہوا ہے، اس کے بعد جس وقت چاہیں ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں، چاہے پہلے دن کرے، چاہے دوسرے دن کرے، چاہے تیسرے دن کرے، جب چاہے کرے، کوئی دن مقرر نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص ایصالِ ثواب کا کوئی طریقہ اختیار کرے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔ (اصلاحی خطبات، جلد نمبر۱)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/