دُنیا کی حقیقت
شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ اپنے خطبات میں فرماتے ہیں:۔
میرے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ اپنے بچپن کا ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ جب میں چھوٹا تھا تو اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ اس زمانے میں ایسے کھیل ہوتے تھے جس میں خرچ کچھ نہیں ہوتا تھا لیکن ورزش پوری ہوتی تھی‘ چنانچہ درختوں سے ’’سر کنڈے‘‘ توڑ لیتے اور پھر ان کو کسی اونچی جگہ سے نیچے کی طرف لڑھکاتے ‘ بچوں میں اس بات کا مقابلہ ہوتا کہ کس کا سرکنڈا سب سے آگے نکلتا ہے‘ جس کا سرکنڈا آگے نکل جاتا وہ جیت جاتا اور وہ بچہ دوسرے بچوں کے سرکنڈوں پر قبضہ کرلیتا۔ اور ’’سرکنڈے‘‘ کو پھینکنے کا ایک خاص طریقہ ہوتا تھا‘ اگر اس طریقے سے پھینکا جاتا تو وہ سرکنڈا سب سے آگے نکل جاتا تھا۔
میرا چچا زاد بھائی بڑا ہوشیار تھا‘ وہ جانتا تھا کہ کس طرح سے سرکنڈا پھینکا جائے تو وہ آگے نکل جائے گا‘ چنانچہ وہ بھی اوپر سے اپنا سرکنڈا پھینکتا اور میں بھی پھینکتا‘ لیکن ہر مرتبہ اس کا سرکنڈا آگے نکل جاتا اور پھر وہ میرے سرکنڈے پر قبضہ کر لیتا‘ یہاں تک کہ میں نے جتنے سرکنڈے جمع کئے تھے‘ وہ سب اس نے جیت لئے۔ آج بھی مجھے اس روز کی دل کی کیفیت یاد ہے کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ سرکنڈے کیا گئے کہ میری کائنات ویران ہو گئی‘ میری دنیا اندھیری ہو گئی‘ میرا سب کچھ لٹ گیا‘ اس دن کے صدمہ کی کیفیت آج بھی مجھے یاد ہے۔
لیکن آج جب اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ کس بیوقوفی اور حماقت میں مبتلا تھا‘ کس چیز کو کائنات سمجھا ہوا تھا‘ یہ واقعہ سنانے کے بعد فرماتے کہ کل قیامت کے دن جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور حاضری ہو گی اور جنت اور جہنم کے مناظر سامنے آئیں گے‘ اس وقت پتہ چلے گا کہ یہ زمین‘ یہ جائیدادیں‘ یہ ملیں‘ یہ کارخانے‘ یہ کاریں‘ یہ بنگلے وغیرہ جس پر لڑائیاں ہو رہی تھیں‘ جس پر جھگڑے ہو رہے تھے‘ جس پر مقدمہ بازیاں ہو رہی تھیں‘ یہ سب ان سرکنڈوں سے زیادہ بے حقیقت ہیں۔(اِصلاحی خطبات جلد۱۲)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

