دور حاضر میں فحاشی کے محرکات

دور حاضر میں فحاشی کے محرکات

۔(ا)۔ ملک کے تمام شہروں میں سینما ہائوس قائم ہیں جہاں دن رات حیا سوز فلمیں دکھا کر شرافت و متانت کو ذبح کیا جاتا ہے ٗ ان فلموں میں عریانیت ٗ فحاشی اور جنس پرستی کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے ٗخاص طور سے غیر ملکی فلموں میں جو ہیجان انگیزی اور ہوس پرستی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں وہ نوجوان نسل کے لئے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں اورجب سینکڑوں افراد ان شرمناک مناظر کو ایک ساتھ بیٹھ کردیکھتے ہیں تو ان کی قباحت و شناعت کا تصور لمحہ بہ لمحہ ختم ہوتا جاتا ہے ٗ نگاہیں اس انسانیت کُش برائی کی عادی ہوتی چلی جاتی ہیں ٗ اورجنس پرستی کی یہ بیماری ایک متعدی جذام کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
۔(۲)۔ ٹیلی ویژن نے یہ قیامت ڈھائی ہے کہ بے حیائی کے جوکام سینما ہالوں ٗ نائٹ کلبوں اور رقص گاہوں تک محدود تھے ٗ اب اس کے ذریعہ ایک ایک گھر کے ڈرائنگ روم میں گھس آئے ہیں جو لوگ سینما ہالوں تک پہنچنے سے کتراتے تھے ٗ اب وہ گھر بیٹھے اس سے سرفراز ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ بڑے چھوٹے اور اپنے پرائے کی تمیز اس حد تک مٹ گئی ہے کہ باپ بیٹیاں اور بہن بھائی رقص و سرور اور فلموں کے خالص جنسی مناظر نہ صرف ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں بلکہ ان پر تبصرے کرتے ہیں اور بعض گھرانوں میں یہ صورت بھی عام ہوگئی ہے کہ آس پاس کے پڑوسی اور محلے کے دوست احباب خاص خاص پروگرام کے لئے جمع ہوجاتے ہیں اور اجنبی لڑکے لڑکیاں بھی یکجا ہو کر ٹی وی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
۔(۳)۔ اخبارات نے عریانی و فحاشی کی نشرواشاعت پرکمر باندھ لی ہے۔ فلمی اشتہارات کے حصے میں جو بسا اوقات کئی صفحات پر چھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس میں ایسی ایسی تصاویر اور ایسی ایسی عبارتیں چھپتی ہیں جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا۔ اخبارات آج کل ہر غریب سے غریب انسان کی ضروریات زندگی میں شامل ہو چکے ہیں ٗ اس لئے فحاشی وعریانی کا یہ سڑا ہوا ملغوبہ ان گھروں میں پہنچتا ہے جہاں ٹی وی تک کا گزر نہیں ٗ ظاہرہے کہ گھر کے لڑکے لڑکیوں سے ان اخبارات کی حفاظت کون کرسکتا ہے ؟ چنانچہ پاکیزہ سے پاکیزہ گھرانوں میں بھی عریانی و فحاشی کے یہ نظارے بڑے بوڑھوں سے لے کر بچوں عورتوں تک سب کی نگاہوں سے گزرتے ہیں۔
۔(۴)۔ رسائل و جرائد نے عریانیت کو ایک مستقل ذریعہ تجارت بنا رکھا ہے۔
۔(۵)۔ اشتہار بازوں نے عورت کوپیسے کمانے کا ایک حربہ سمجھ لیا ہے ٗ چنانچہ دنیا کی کسی چیز کا اشتہار عورت کی تصویر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ قدرت کی اس مقدس تخلیق کو ایک کھلونا بنا کر استعمال کیا جارہا ہے اور اس کے ایک ایک عضو کی عریاں نمائش کرکے گاہکوں کومال خریدنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ چنانچہ سڑکوں پرچلتے ہوئے ایک شریف انسان کے لئے نگاہوں کو بچانا مشکل ہے۔ خاص طور سے فلموں کے اشتہار کے لئے قدم قدم پر جو سائن بورڈ آویزاں ہیں وہ ہر آن فحاشی کی تبلیغ کر رہے ہیں۔
۔(۶)۔ نیم عریاں نہیں ٗ بالکل عریاں تصویروں کی خریدوفروخت عام ہوچکی ہے
۔(۷)۔ خاص خاص مقامات پر ایسی بلو فلمیں بڑی بڑی قیمتیں وصول کرکے دکھائی جاتی ہیں جن میں انسان کے جسم پر کپڑے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور جنہیں دیکھ کر درندے بھی شرماجائیں۔ اگرچہ اس قسم کی تصاویر قانوناً ممنوع ہیں اور بعض مرتبہ اس قسم کے اڈوں پر پولیس کے چھاپے بھی پڑتے رہتے ہیں لیکن اس قسم کے ہنگامی یا مصنوعی اقدامات سے اس انسانیت سوز بدکاری کے رواج میں کوئی کمی نہیں آرہی ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
پھر یہ ساری رام کہانی تو صرف ان فحاشیوں کی ہے جو متوسط اور کم آمدنی والے حلقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان سے آگے بڑھ کر دولت مند طبقوں اور نام نہاد ’’ اونچی سوسائٹیوں‘‘ میں جو کچھ ہورہاہے ٗ اس کا تصور بھی لرزہ خیز ہے ’’ ماڈل گرلز‘‘ اور’’سنگرگرلز‘‘ کے ذریعہ عصمت فروشی تہذیب کاجزء بن گئی ہے پستی و ذلت اور کمینگی کی انتہا ہے کہ ان ’’ اونچے حلقوں‘‘ میں ’’ تبادلہ ازواج‘‘ کے باقاعدہ کلب قائم ہیں جن میں دیوثی کو ایک فن بنا لیا گیا ہے۔ لَاحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
پھر حیرتناک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ شرافت و انسانیت کی یہ قتل گاہیں اس ملک اور اس معاشرے میں سرگرم عمل ہیں جہاں صرف بداخلاق ٗ آبروباختہ اوربے حیا افرادنہیں بستے ٗ بلکہ ان فحاشیوں کوسچے دل سے پسندکرنے والے بہت کم ہیں ٗ اور ایک بھاری تعداد ان مسلمانوں کی ہے جو ان تمام بے راہیوں کونفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن شرفاء کے اس انبوہ میں کوئی خدا کا بندہ ایسا نہیں جوفحاشی کے ان دلالوں سے یہ پوچھ سکے کہ تم اس ستم رسیدہ قوم اور مصیبت زدہ ملت کوتباہی کے کس غار کی طرف لے جارہے ہو ؟ ہماری بے حسی کاعالم یہ ہے کہ ہم صبح و شام اپنی آنکھوں سے اپنے بچوں اور نوجوانوں کوفحاشی کی بھینٹ چڑھتا دیکھتے ہیں ٗ لیکن ان کو اس مصیبت سے بچانے کاکوئی جذبہ ہمارے دل میں پیدانہیں ہوتا۔ نہ ہمیںاس نوخیز نسل پرکوئی رحم آتا ہے ٗ نہ ان کے مستقبل کی کوئی فکردامن گیر ہوتی ہیٗ نہ تباہی کے اس سیلاب کو روکنے کے لئے سینوں میں عزم وعمل کی کوئی لہر اٹھتی ہے۔ کوئی بہت زیادہ حساس انسان ہے تو وہ اس صورت حال پر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوجاتا ہے زیادہ سے زیادہ کسی محفل میں اس کی برائیوں پر تبصرہ کرلیتا ہے لیکن یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے ؟ اس کی ذمہ داری کس پرہے ؟ اس سیلاب کو روکنے کی عملی صورت کیاہے ؟ ان تمام سوالات کے آگے ہمار ی عقل و فکر فہم و فراست ٗ قوت عمل اور نیکی و تقویٰ کے تمام جذبات نے سپر ڈال رکھی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے صرف سینما ٗ ٹی وی ٗ ریڈیو ٗ نشرواشاعت کے ذرائع اور حکومت کی بے حسی کا شکوہ کرنے سے بات نہیں بنتی۔ یہ سب چیزیں بلا شبہ اس تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ معاشرہ میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور بے حیائی کی بہت بڑی ذمہ داری خود ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خوداپنے جہد و عمل سے اس فحاشی و عریانی کے خلاف ایک عام مدافعانہ شعور پیدا کرسکتے تو ممکن نہیں کہ مذکورہ بالا ادارے جسارت اورڈھٹائی کی اس حد پر اتر آئیں۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more