دین کا کام مجاہدہ کے بغیر نہیں چلتا

دین کا کام مجاہدہ کے بغیر نہیں چلتا

دین کا کام ’’ مجاہدہ ‘‘ کے بغیر نہیں چلتا ،بلکہ دنیا کے کام بھی مجاہدے کے بغیر نہیں ہوسکتے، اگر کوئی شخص روزی حاصل کرنا چاہتاہے تو اس کیلئے اس کو بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے ، اس کیلئے اپنے نفس کے تقاضوں کو کچلنا پڑتا ہے ، اس لئے نفس کا تقاضہ تو یہ ہے کہ آرام سے گھر میں پڑا سوتا رہے ، لیکن وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر میں سوتا رہ گیا تو روزی کیسے کمائوں گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات میں تین عالم پیدا فرمائے ہیں ایک عالم وہ ہے جس میں آپ کی ہر خواہش پوری ہوگی ، اس میں خواہش کے خلاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، جو دل چاہے گا وہ ہوگا۔ اس میں انسان نفس کی خواہش کے مطابق کرنے کیلئے آزاد ہوگا، اس کو اس کے مواقع میسر ہوں گے، وہ عالم ’’ جنت ‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے وہ عالم عطا فرما دے آمین۔
دوسرا عالم اس کے بالکل برعکس ہے ، وہاں ہر کام طبیعت کے خلاف ہوگا ، ہر کام دکھ دینے والا ہوگا، ہر کام غم میں مبتلا کرنے والا ، ہر کام میں تکلیف اور مصیبت ہوگی، کوئی کام آرام ، کوئی راحت اور کوئی خوشی نہیں ہوگی، وہ عالم دوزخ ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے آمین۔
تیسرا عالم وہ ہے جس میں طبیعت کے مطابق بھی کام ہوتے ہیں، اور طبیعت کے خلاف بھی کام ہوتے ہیں، خوشی بھی حاصل ہوتی ہے، غم بھی آتا ہے، تکلیف بھی پہنچتی ہے، راحت بھی ملتی ہے، اس عالم میں کسی کی کوئی تکلیف خالص نہیں ، کوئی راحت خالص نہیں، ہر راحت میں تکلیف کا کوئی کانٹا لگا ہوا ہے ، اورہر تکلیف میں راحت کا پہلو بھی ہے یہ عالم دنیا ہے۔
اس دنیا میں طبیعت کے خلاف باتیں پیش آنی ہی ہیں تو پھرطبیعت کے خلاف کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ طبیعت کے خلاف کام بھی کرو، صدمے بھی اٹھائو، تکلیفیں بھی برداشت کرو، لیکن ان تکلیفوں کے بدلے میں آخرت میں کوئی نتیجہ نہ نکلے ، اس غم سے آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو، اللہ تعالیٰ اس سے راضی نہ ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کے خلاف کام کرے، نفس کے تقاضے کو کچلے تاکہ آخرت سنور جائے، اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت یہ ہے کہ اس دنیا میں طبیعت کے خلاف تو ہونا ہی ہے تمہارادل چاہے یا نہ چاہے، لیکن ایک مرتبہ یہ عہد کرلو کہ طبیعت کے خلاف وہ کام کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگا۔
حضرات انبیاء علیہم السلام کا یہی پیغا م ہے کہ اپنے نفس کو طبیعت کے خلاف ایسے کام کرنے کی عادت ڈالو جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے ہوں ،اسی کا نام ’ ’ مجاہدہ ‘‘ ہے۔
چنانچہ صوفیاء کے یہاں چار چیزوں کا مجاہدہ کرانا مشہورہے (۱) تقلیل طعام ، کم کھانا (۲) تقلیل کلام ،کم بولنا(۳) تقلیل منام ، کم سونا(۴) تقلیل الاختلاط مع الانام ، لوگوں سے کم ملنا۔
یہ مجاہدات اس لئے کرائے جاتے ہیں تاکہ ہمارا یہ نفس قابو میں آجائے اورناجائز کاموں پر اکسانا چھوڑ دے ، اس لئے یہ مجاہدات ہر انسان کو کرنے چاہئیں اور بہتر یہ ہے کہ یہ مجاہدات کسی رہنما کی نگرانی میں کرے ، خود اپنی مرضی اور اپنے فیصلے سے نہ کرے ، اس لئے کہ اگر انسان خود سے یہ فیصلہ کرے گا کہ میں کتنا کھائوں، کتنا نہ کھائوں، کتنا سوئوں، کتنا نہ سوئوں، کتنے لوگوں سے تعلقات رکھوں ، کن سے تعلقات نہ رکھوں، تو اس میں بے اعتدالی ہوسکتی ہے لیکن جب کسی رہنما کی رہنمائی میں یہ کام کرے گا تو ان شاء اللہ اس کے فوائد حاصل ہوں گے ، اورہر کام اعتدال میں رہ کر ہوتا رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔(اصلاحی خطبات جلد دوم)

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more