دینداروں کی بے فکری
آج کل ہمارے معاشرے میں جولوگ دیندار سمجھے جاتے تھے وہ بھی اپنے گھر والوں کی دینی اصلاح و تربیت سے بالکل بے فکر بیٹھ گئے ہیں۔ اگر آپ اپنے گردوپیش کاجائزہ لیں تو ایسی بیسیوں مثالیں آپ کو نظر آجائیں گی کہ ایک سربراہ خاندان اپنی ذات میں بڑا نیک اور دیندار انسان ہے ٗ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہے ٗ سود ٗ رشوت ٗ قمار اور دوسرے گناہوں سے پرہیز کرتاہے ٗ اچھی خاصی دینی معلومات رکھتا ہے ٗ اور مزید معلومات حاصل کرنے کا شوقین ہے۔ لیکن اس کے گھر کے دوسرے افراد پر نگاہ ڈالیے تو ان میں ان اوصاف کی کوئی جھلک خورد بین لگا کر بھی نظر نہیں آتی۔ دین ٗ مذہب ٗ خدا ٗ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٗ قیامت اور آخرت جیسی چیزیں سوچ بچار کے موضوعات سے یکلخت خارج ہو چکی ہیں ۔ ان کی بڑی سی بڑی عنایت اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ اپنے ماں باپ کے مذہبی طرز عمل کو گوارا کر لیتے ہیں۔ اس سے نفرت نہیں کرتے۔ لیکن اس سے آگے نہ وہ کچھ سوچتے ہیں ٗ نہ سوچنا چاہتے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اولاد کی مکمل ہدایت ماں باپ کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوتی۔ نوح علیہ السلام کے گھرمیں بھی کنعان پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ فریضہ توہرمسلمان کے ذمہ عائد ہوتاہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی دینی تربیت میں اپنی پوری کوشش صرف کردے۔ اگر کوشش کے باوجود راہ راست پر نہیں آتے تو بلاشبہ وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہے لیکن اگر کوئی شخص اس مقصد کی طرف کوئی دلی توجہ نہیں کرتا اور اس نے اپنے تئیں دین پرعمل کرکے اپنے گھروالوں کو حالات کے دھارے پربے فکری سے چھوڑ دیا ہے تو وہ ہرگز اللہ کے نزدیک بری نہیں ہے۔ اس کی مثال اس احمق کی سی ہے جو اپنے بیٹے کو خودکشی کرتے ہوئے دیکھے اور یہ کہہ کر الگ ہوجائے کہ جوان بیٹا اپنے عمل کا خود ذمہ دارہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

