بیوی سے اللہ کیلئے تعلق
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ اپنے وعظ ’’چند الوداعی نصیحتیں‘‘ میں فرماتے ہیں:میں نے اپنے شیخ عارف باللہ حضرت ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفی رحمہ اللہ سے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے آخری زمانے کی یہ بات سنی کہ ایک دن حضرت تھانوی فرمانے لگے کہ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر مرحلہ پر اللہ جل شانہ فرما رہے ہیں اور ہدایت دے رہے ہیں کہ اب یہ کرلو،اب یہ کرلو۔ اس لیے یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہورہا ہے۔یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت کی اہلیہ ان سے ایسے ناز کے انداز میں کہنے لگیں کہ آپ نے میرے لیے کیا کیا؟ آپ تو جو کچھ کرتے ہیں اللہ میاں کے لیے کرتے ہیں۔تو حضرت نے اس کی تردید نہیں فرمائی بلکہ فرمایا کہ بی بی یہ بتاؤ۔اگر اللہ کے لیے کرتا ہوں تو اس میں تمہارا نقصان کیا ہے؟
میں اللہ کیلئے تمہارے حقوق ادا کرتا ہوں ۔اس طرح تمہارے حقوق ادا ہورہے ہیں یا نہیں ؟ اگر اللہ کے لیے حقوق ادا کرنے کی وجہ سے تمہارے حقوق ادا نہیں ہورہے ہوتے تو تمہارے پاس شکایت کا ایک موقع تھا ۔لیکن واقعہ تو یہ ہے کہ جب انسان اللہ کے لیے بندہ کا حق ادا کرتا ہے تو پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے بندوں کے حقوق ادا ہوتے ہیں۔
اگر انسان صرف اس لیے حقوق ادا کرے کہ یہ میری بیوی ہے۔ یہ میرا بچہ ہے،یہ میری اولاد ہے، یہ میرا دوست ہے۔ اس میں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دماغ میں بدلے کی بات آ جائے کہ یہ تو میرے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے،میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کیوں کروں؟
تو اس میں بدلے کی بات آ جاتی ہے لیکن جب اللہ کے لیے حقوق کی ادائیگی کررہا ہو تو بدلہ کی فکر نہیں ہوتی۔۔۔ دوسرا میرے ساتھ کیسا بھی سلوک کررہا ہو۔۔۔ میں تو اللہ کے لیے اس کا حق ادا کروں گا۔اللہ تعالیٰ یہ دھیان ہمارے دلوں میں بٹھا دیں تو یہی دُنیا جنت بن جائے اور پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کا آئینہ بن جائے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

