بیوی کی دلجوئی سنت ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواج مطہرات کے ساتھ دلداری اور دلجوئی اورحسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ رات کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو گیارہ عورتوں کا قصہ سنا رہے ہیں کہ یمن کے اندر گیارہ عورتیں تھیں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ وہ سب ایک دوسرے کو اپنے اپنے شوہر کی حقیقی اورواقعی حالت بیان کریں گی یعنی ہر عورت یہ بتائے گی کہ اس کا شوہر کیسا ہے ؟ اس کے کیا اوصاف ہیں ؟ ان گیارہ عورتوں نے اپنے شوہروں کے اوصاف کس وضاحت اور بلاغت کے ساتھ بیان کئے ہیں کہ ساری ادبی لطافتیں اس پر ختم ہیں۔ وہ سارا قصہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سنا رہے ہیں (شمائل ترمذی)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں مقیم تھے، اوران کی باری کا دن تھا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک حلوہ پکایا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے گھرپر لائیںاورلاکر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا اورحضرت سودہ بھی سامنے بیٹھی ہوئی تھیں ان سے کہا کہ آپ بھی کھائیں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات گراں گزری کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے اور میری باری کا دن تھا تو پھر یہ حلوہ پکا کر کیوں لائیں ؟ اس لئے حضرت سودہ نے انکار کردیا کہ میں نہیں کھاتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ حلوہ کھائو اوراگر نہیں کھائو گی تو پھر یہ حلوہ تمہارے منہ پر مل دوں گی ، حضرت سودہ نے فرمایا کہ میں تو نہیں کھائوں گی۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تھوڑا سا حلوہ اٹھا کر حضرت سودہ کے منہ پر مل دیا اب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ ! انہوں نے میرے منہ پر حلوہ مل دیا ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ : وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا یعنی کوئی شخص اگر تمہارے ساتھ برا سلوک کرے تو تم بھی بدلے میں اس کے ساتھ برا سلوک کرسکتے ہو اب اگر انہوں نے تمہارے منہ پر حلوہ مل دیا ہے تو تم بھی ان کے چہرے پر حلوہ مل دو، چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے تھوڑا سا حلوہ اٹھا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پرمل دیا، اب دونوں کے چہروں پر حلوہ ملا ہواہے اور یہ سب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہورہا ہے۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ، پوچھا کہ کون ہے ؟ معلوم ہواکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں (شاید اس وقت پردے کے احکام نہیں آئے تھے) جب آپ نے یہ سنا کہ حضرت عمر تشریف لائے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تم دونوں جلدی جاکراپنے چہرے دھو لواس لئے کہ عمر آرہے ہیں چنانچہ دونوں نے جاکر اپنا چہرہ دھویا۔
۔(مجمع الزوائد للہیثمی جلد ۴ صفحہ ۳۱۶)۔
وہ ذات جس کا ہر آن اللہ جل جلالہ کے ساتھ رابطہ قائم ہے جس کی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ گفتگو ہورہی ہے ، اوروحی آرہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حضوری کا وہ مقام حاصل ہے جو اس روئے زمین پر کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے باوجود ازواج مطہرات کے ساتھ یہ انداز اور ان کی دلداری کا اتنا خیال ہے۔
اور اس موضوع پر بالکل صریح حدیث موجود ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فرماتے ہیںصحابہ کرام نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے اس پر کیا اجر ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ ان نفسانی خواہشات کو ناجائز طریقے سے پور ا کرتے تو اس پر گناہ ہوتا یا نہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! گناہ ضرور ہوتا ۔ آپ نے فرمایا کہ چونکہ میاں بیوی ناجائز طریقے کو چھوڑ کر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو میری وجہ سے اورمیرے حکم کے ماتحت کر رہے ہیں اس لئے اس پر بھی ثواب ہوگا۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ۱۶۷)(اصلاحی خطبات جلد دوم)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

