بیماری اور پریشانی ایک نعمت
شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کے ایک وعظ کی تلخیص
دنیا میں پیش آنیوالی پریشانیوں کی دو قسمیں ہیں: ایک پریشانیاں وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قہر اور عذاب ہوتا ہے اور دوسری قسم کی پریشانیاں اور تکالیف وہ ہیں جن کے ذریعے بندے کے درجات بلند کرنے ہوتے ہیں۔
ان دونوں میں فرق کس طرح کریں گے کہ یہ پہلی پریشانی ہے یا دوسری قسم کی؟ ان دونوں کی علامات الگ الگ ہیں وہ یہ کہ اگر انسان ان تکالیف میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دے اور تقدیر کا شکوہ کرنے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ جو تکلیف اس پر آئی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انسان پر قہر اور عذاب و سزا ہے۔
اگر تکالیف کے آنے کے باوجود انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہا ہے، رنج و غم کا اظہار و احساس بھی کر رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر شکوہ نہیں کر رہا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ تکالیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ترقی درجات ہیں اور یہ تکالیف اس کے لیے اجرو ثواب کا باعث ہیں۔
اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کو کبھی کوئی نہ کوئی تکلیف نہ پہنچے، چاہے وہ بڑے سے بڑا نبی اور پیغمبر ۔۔۔ بادشاہ یا سرمایہ دار ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو ایسا بنایا ہے کہ اس میں غم اور خوشی، راحت اور تکلیف ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔۔۔ خالص خوشی اور راحت کا مقام دنیا نہیں، بلکہ وہ جنت ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص اس دنیا میں بے غم ہو کر بیٹھ جائے۔۔۔ البتہ کسی کو کم تکلیف ہے، کسی کو زیادہ ہے۔۔۔ ہر شخص کا اپنا ایک حال ہے لیکن اگر یہ پریشانی پہلی قسم سے ہے تو یہ اس کے لیے عذاب ہے اور اگر دوسری قسم سے ہے تو یہ اس کے لیے رحمت اور باعث اجرو ثواب ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

