بے تحقیق باتیں نہ پھیلائیں
اسلام کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بن کر زندگی گذارے۔ اس کے منہ سے جو بات نکلے، وہ کھری اور سچی بات ہو، اور وہ اپنے کسی قول و فعل سے غیر ذمہ داری کا ثبوت نہ دے، قرآن کریم ہی کا ارشاد ہے کہ: انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے، اسے (محفوظ رکھنے کے لئے) ایک نگہبان ہر وقت تیار ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ جو بات وہ زبان سے نکال رہا ہے، وہ فضا میں تحلیل ہو کر فنا ہو جاتی ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کہیں ریکارڈ ہو رہی ہے، اور آخرت میں اس سارے ریکارڈ کا ہر شخص کو جواب دینا ہو گا، اسی لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں زبان کو قابو میں رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔
لیکن ان تمام تعلیمات کے برعکس آج کل ہماری زبانیں اتنی بے قابو ہو گئی ہیں کہ ان کے استعمال میں ذمہ داری کا تصور ہی باقی نہیں رہا۔ یوں تو ہر قسم ہی کی خبر میں احتیاط اور ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے موجودہ ماحول میں کسی شخص پر کوئی الزام عائد کرنا ایک کھیل بن کر رہ گیا ہے، جس میں کسی تحقیق اور ذمہ داری کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، بالخصوص اگر کسی شخص سے ذاتی، جماعتی یا سیاسی اختلاف ہو تو اسکی غیبت کرنا، اس پر بہتان باندھنا اور اسے طرح طرح سے بے آبرو کرنا حلال طیب سمجھ لیا گیا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ماحول میں غیر ذمہ دارانہ باتیں بے حد پھیل گئی ہیں، لیکن اس کا علاج صرف مذمت کرتے رہنا نہیں ہے، بلکہ ہر برائی کا علاج یہ ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ یہ عزم کر لے کہ دوسرے لوگ خواہ کچھ کرتے رہیں، کم از کم وہ اپنے قول و فعل میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریگا، اور بے تحقیق باتوں کو پھیلا کر افواہ طرازی کا مرتکب نہیں ہو گا۔ جب افراد میں یہ فکر پیدا ہوجاتی ہے تو ایک شخص کا طرز عمل دوسرے کیلئے بھی ایک نمونہ بنتا ہے، اور اسی طرح معاشرہ سدھار کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے۔ (ذکر و فکر)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

