باطنی امراض کے معالجین
انسان کے دل کے ساتھ کچھ چیزیں ایسی وابستہ ہیں جو ان دیکھی ہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتیں۔ مثلاً دل میں شکر ہے یا نہیں؟ حسد ہے یا نہیں؟ بغض ہے یا نہیں؟ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ظاہری جسمانی امراض کا معالج دیکھ کر نہیں بتا سکتا اور کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی کہ جس کے ذریعے چیک کرکے بتا دیا جائے کہ اس کو یہ باطنی بیماری ہے۔
باطنی امراض کی تشخیص اور علاج کرنے والی قوم کو ’’حضرات صوفیاء کرام‘‘کہتے ہیں جو علم الاخلاق کے ماہر اور باطن کی بیماریوں کی تشخیص کرکے ان کا علاج کرتے ہیں ۔یہ ایک مستقل فن اور مستقل علم ہے اسکو بھی اسی طریقے سے پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے جس طرح ڈاکٹری ہوتی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ آدمی کسی روحانی معالج سے تشخیص کرائے۔
حضرات صوفیاء کرام کا اصل کام باطن کی بیماریوں کا علاج تھا۔ محض وظیفے‘ ذکر ‘ تسبیح و معمولات نہیں تھے۔ یہ چیزیں بطور مقویات کے ہیں یہ اصلاح کے عمل میں معاون ہیں لیکن اصل مقصد یہ تھا کہ باطن کی بیماریاں دور ہوں۔ تکبر‘ حسد‘ بغض عجب منافقت ریاکاری حب جاہ‘ حب دنیا جیسی چیزوں سے دل کو صاف کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ سے امید وابستہ ہو‘ یہ چیزیں پیدا کرنا تصوف کا اصل مقصود ہے۔
انسان کے ظاہری اعمال و افعال سے متعلق جواحکام ہیں انکو شریعت کہتے ہیں اور باطن کے اعمال و افعال سے متعلق احکام کے مجموعے کا نام تصوف یاطریقت ہے۔ باطن اسلئے زیادہ اہم ہے کہ اگر یہ درست نہ ہو تو ظاہری اعمال بھی بیکار ہو جاتے ہیں مثلاً اخلاص کے بغیر نماز پڑھی جائے تو الٹا گناہ ہوگا۔
بزرگوں نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ چونکہ انسان ان چیزوں کی اصلاح خود نہیں کر سکتا‘ لہٰذا کوئی معالج تلاش کرنا چاہیے اسکو پیر کہہ لو‘ شیخ یا استاد کہہ لو ‘ لیکن اصل میں وہ باطنی بیماریوں کا ڈاکٹر ہے۔جب تک انسان یہ نہیں کرے گا اسوقت تک اسطرح کی بیماریوں میں مبتلا رہے گا اور اسکے اعمال خراب ہوتے چلے جائینگے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

