باطنی اخلاق میں سے زھد کا بیان
آج بھی ایک باطنی اخلاق کا بیان ہے جس کو ’’ زھد ‘‘ کہا جاتاہے ۔ آپ حضرات نے یہ لفظ بہت سنا ہوگا کہ فلاں شخص بڑا عابد اور زاہد ہے ۔ زاہد اس شخص کو کہتے ہیں جس میں ’’ زھد ‘‘ اور ’’ زھد ‘‘ ایک باطنی اخلاق ہے جسے ہر مسلمان کو حاصل کرنا ضروری ہے اور ’’ زھد ‘‘ کے معنی ہیں ’’ دنیا سے بے رغبتی ‘‘ اور ’’ دنیا کی محبت سے دل کا خالی ہونا ‘‘ دل دنیا میں اٹکا ہوا نہ ہو، اس کی محبت اس طرح دل میں پیوست نہ ہوکہ اسی کا دھیان اور اسی کا خیال اسی کی فکر ہے اور اسی کیلئے دوڑ دھوپ ہورہی ہے اس کا نام ’’ زھد ‘‘ ہے۔
یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہ بڑا نازک مسئلہ ہے کہ دنیا کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے ، دنیا کے اندر بھی رہناہے جب بھوک لگتی ہے تو کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے، اور جب پیاس لگتی ہے تو پانی کی ضرورت پیش آتی ہے ، سر چھپانے اور رہنے کیلئے گھر کی بھی ضرورت ہے کسب معاش کی بھی ضرورت ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کام بھی انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان دنیا کے اندر بھی رہے اوردنیا کی ضروریات بھی پوری کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں دنیا نہ آئے ، دل میں دنیا سے بے رغبتی پائی جائے۔ ان دونوں کا ایک ساتھ جمع ہونا مشکل نظر آتا ہے ، یہی وہ کام ہے حضرات انبیاء علیہم السلام اورا ن کے وارثین آکر سکھاتے ہیں کہ کس طرح تم دنیا میں رہو، اوردنیا کی محبت کو دل میںجگہ نہ دو ، ایک حقیقی مسلمان دنیا کے اندر بھی رہے گا،دنیا والوں سے تعلق بھی قائم کرے گا۔ حقوق بھی ادا کرے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی محبت سے بھی پرہیز کرے گا۔
عام طور پر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک طرف تو انسان اس دنیا کو ضروری بھی سمجھے، اوراس کی اہمیت بھی ہو لیکن دل میں اس کی محبت نہ ہو، اس بات کو ایک مثال سے سمجھ لیں۔ آپ جب ایک مکان بناتے ہیں تو اس مکان کے مختلف حصے ہوتے ہیں ایک سونے کا کمرہ ہوتا ہے ،ایک ملاقات کا کمرہ ہوتا ہے ، ایک کھانے کا کمرہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ، اور اسی مکان میں آپ ایک بیت الخلاء بھی بناتے ہیں اور بیت الخلاء کے بغیر وہ مکان نامکمل ہے ،اگر ایک مکان بڑا شاندار بنا ہواہے کمرے اچھے ہیںبیڈ روم بڑا اچھا ہے ، ڈرائنگ روم بہت اعلیٰ ہے ، کھانے کا کمرہ اچھا ہے اورپورے گھر میں بڑا شاندار اور قیمتی قسم کا فرنیچر لگا ہوا ہے۔ مگر اس میں بیت الخلاء نہیں ہے، بتایئے کہ وہ مکان مکمل ہے یا ادھورا ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہ مکان ناقص ہے، اس لئے کہ بیت الخلاء کے بغیر کوئی مکان مکمل نہیں ہوسکتا ، لیکن یہ بتایئے کہ کیاکوئی انسان ایسا ہوگا کہ اس کا دل بیت الخلاء سے اس طرح اٹکا ہوا ہو کہ ہرو قت اس کے دماغ میں یہی خیال رہے کہ کب میں بیت الخلاء جائوں گا اور کب میں اس میں بیٹھوں گا اور کس طرح بیٹھوں گا اور کتنی دیر بیٹھوں گا، اور کب واپس نکلوں گا ، ہروقت اس کے دل و دماغ پر بیت الخلاء چھایاہوا ہو، ظاہر ہے کہ کوئی انسان بھی بیت الخلاء کو اپنے دل و دماغ پر اس طرح سوار نہیں کرے گا اور کبھی اس کو اپنے دل میں جگہ نہیں دے گا ۔ اگرچہ وہ جانتا ہے کہ بیت الخلاء ضروری چیز ہے اس کے بغیر چارہ کار نہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ اس کے بارے میں ہر وقت یہ نہیں سوچے گا کہ میں بیت الخلاء کو کس طرح آراستہ کروں اور آرام دہ بنائوں اس لئے کہ اس بیت الخلاء کی محبت دل میں نہیں ہے۔
انسان ذرا سوچے تو سہی کہ یہ دنیا کس وقت تک کی ہے ایک دن کی، دو دن کی ، تین دن کی ، کسی کو پتہ ہے کہ کب تک اس دنیا میں رہوں گا کیا اس کو یقین ہے کہ میں اگلے گھنٹے بلکہ اگلے لمحے تک بھی زندہ رہوں گا جس دن بلاوا آئے گا سب کچھ چھوڑ کر چلا جائے گا کوئی چیز ساتھ نہیں جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا کی حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔(اصلاحی خطبات جلد سوم)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/