بغیر تحقیق سنی سنائی باتوں کی تشہیر

بغیر تحقیق سنی سنائی باتوں کی تشہیر

از افادات: شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی

انسانی نفس کی چوریوں سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ کون باخبر ہو سکتا ہے؟ چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو حکم بھی دیا، اسکے تمام مضمرات کو سمجھتے ہوئے ایسے تمام راستوں کو بھی بند کیا جو اس حکم کی خلاف ورزی کی طرف لے جاسکتے ہیں اور ان چور دروازوں کی بھی نشان دہی فرمائی جہاں سے انسان کی نفسانی خواہشات حیلے بہانے تلاش کر سکتی ہیں۔ نفس انسانی کی ایک فطرت یہ ہے کہ جس برائی کا الزام وہ براہِ راست اپنے سر لینا نہیں چاہتا، اسے کسی اور شخص کے کندھے پر رکھ کر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مقصد بھی حاصل ہو جائے اور اپنے اوپر حرف بھی نہ آئے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جھوٹ کے سلسلے میں انسان کی اس نفسیاتی کیفیت کو نہایت لطیف اور بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے، امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ جھوٹ کی بدترین سواری یہ فقرہ ہے کہ ’’ لوگ یوں کہتے ہیں‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ براہِ راست جھوٹ بولنے سے کتراتے ہیں، وہ بے بنیاد اور بے تحقیق باتیں لوگوں کے سر پر رکھ کر کہہ دیتے ہیں، ’’ لوگ تو یوں کہتے ہیں‘‘ لوگوں میں تو یہ بات مشہور ہے، لوگوں کا کہنا تو یہ ہے، یہ وہ فقرے ہیں جو جھوٹ کے الزام سے بچنے کے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں، اور جھوٹ جو اپنے پائوں چل کر نہیں پھیل سکتا، اس قسم کے فقروں پر سوار ہو کر پھیل جاتا ہے، اسی لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس فقرے کو’’ جھوٹ کی سواری‘‘ قرار دیا۔

یہ تو ایک لطیف اور استعاراتی پیرایہ بیان تھا، جو حقائق پر نگاہ رکھنے والوں کے لئے بڑا مؤثر اور دل میں اتر جانے والا ہے، لیکن اسی بات کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں بالکل سادہ اور عام فہم الفاظ میں بھی ارشاد فرمایا جسے ہر شخص سنتے ہی سمجھ جائے، فرمایا:’’ انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنی بات بھی کافی ہے کہ وہ ہر وہ بات دوسروں کو سنانے لگے جو اس نے کہیں سے بھی سن لی ہو‘‘۔

قرآن و سنت کے ان ارشادات سے اسلام کا جو مجموعی مزاج سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جب تک کسی بات کی مناسب تحقیق نہ ہو جائے، اس وقت تک اسے دوسروں کے سامنے بیان کرنا جائز نہیں، اگر کوئی شخص اس قسم کی بے تحقیق بات کو پورے وثوق اور یقین سے بیان کرے تب تو ظاہر ہے کہ وہ خلافِ واقعہ اور غلط بیانی کے ذیل میں آتا ہے، لیکن اگر بالفرض وثوق کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے ’’ لوگ کہتے ہیں‘‘ جیسے فقرے کا پردہ رکھ کر بیان کرے، لیکن مقصد یہی ہو کہ سننے والے اسے سچ باور کر لیں، تب بھی مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا جائز نہیں۔ (ذکر و فکر)

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more