بدگمانی کی بنیاد پر کارروائی مت کرو
قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ محض بدگمانی کی بنیاد پر کسی کے ساتھ معاملہ کرنا جائز نہیں۔ہاں!تحقیق کرسکتے ہو،تفتیش کرسکتے ہو۔پوچھ گچھ کرسکتے ہو اور اس کے لیے جائز ذرائع استعمال کرسکتے ہو۔ لیکن کسی پر بدگمانی کرکے یقین کربیٹھنا اور اس بدگمانی کی بنیاد پر کارروائی کرنا ہرگز جائز نہیں۔ حرام ہے بلکہ اگر کسی مسلمان کے اندر کوئی ایسی بات دیکھی جس سے شبہ پیدا ہورہا ہے ۔تو بھی حکم یہ ہے کہ اس کے بارے میں حتی الامکان ایسا احتمال تلاش کرنے کی کوشش کرو جو اس کے عمل کو جائز کرنے والا ہو۔
شریعت کے احکام کا حُسن دیکھئے کہ ایک طرف تو ہمیں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ لوگوں سے بدگمانی مت کرو۔اگر کسی کے بارے میں تمہیں کوئی شبہ بھی ہوا ہے تو حتی الامکان اس کی تاویل اور توجیہ کرلو کہ شاید اس نے اس نیت سے یہ کام کیا ہوگا۔ ایک طرف تو یہ حکم دیا اور دوسری طرف ہر انسان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ ہے کہ ۔’’اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّھَمِ‘‘ ۔
یعنی ایسے مواقع سے بچو جس سے لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہو۔ کوشش کرو کہ خواہ مخواہ ایسا موقع نہ آئے کہ جس سے لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہو اور لوگ تمہارے اوپر تہمت لگائیں۔ یعنی ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دو جس سے کسی کے دل میں شبہ پیدا ہو کہ یہ شخص کوئی غلط حرکت کررہا ہے۔اس سے بچو!۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

