عورت میراث اور حقِ مہر سے محروم کیوں۔۔۔؟؟؟
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں۔ ہم جن علاقوں اور معاشروں میں رہتے ہیں۔ وہاں نہ جانے کتنی ایسی غلط رسمیں ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن جب ہم ان معاشروں میں پہنچتے ہیں تو ان کی روک تھام کیلئے کوشش کرنے کی بجائے خود ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی عام رواج ہے کہ بیٹی کو ترکے میں سے کوئی حق نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح عورت اگر بیوہ ہوجائے تو اس کے لئے دوسرے نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے بالکل ایسا جیسے کفر۔ حالانکہ ہمارے بزرگوں نے نکاح بیوگان کے حق میں عملی جہاد کیا۔ لیکن ہم اپنے معاشرے میں ان رسموں کے خلاف آواز اُٹھانے کے بجائے ان کے اندر بہہ جاتے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری بہنوں نے ہمارا حصہ بخش دیا اول تو بخشا نہیں ہوتا۔ بلکہ بہن کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے ذرا سی زبان کھولی تو میرا بھائی میری زندگی عذاب کر دے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ ترکے کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی وارث زبان سے کہہ بھی دے کہ میں نے بخش دیا تو وہ بخشنا معتبر نہیں۔ معتبر ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس کا حصہ اس کے قبضہ میں دو۔ اس پر قبضہ کرنے کے بعد اگر وہ اپنی خوشدلی سے تمہیں کچھ دینا چاہے تو دیدے۔ اس لئے لوگوں کا یہ حیلہ سراسر غلط اور خلافِ شریعت ہے۔
یہی حال مہر کا ہے کہ نکاح کے وقت تو بھاری مہر مقرر کر لیتے ہیں اور دینے کی نیت ہوتی نہیں۔ جب بیچاری کے مرنے کا وقت آپہنچا تو اُس وقت اُسے کہتے ہیں خدا کیلئے مجھے مہر معاف کردو۔ اب بیچاری کیا کہے کہ میں معاف نہیں کرتی۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر وہ زبان سے معاف کردیتی ہے۔ لیکن یہ معافی شرعاً معتبر نہیں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

