عورت کی آزادی کی حقیقت
یہ نعرہ آج بہت زورو شور سے لگایاجاتا ہے کہ عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہئے اورمغربی افکار نے یہ پروپیگنڈہ ساری دنیا میں کردیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اگر مرداورعورت دونوں ایک ہی جیسے کام کیلئے پیدا ہوئے تھے تو پھر دونوں کو جسمانی طورپر الگ الگ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ مرد کا جسمانی نظام اورہے ، عورت کا جسمانی نظام اورہے ، مرد کامزاج اورہے اور عورت کا مزاج اورہے، مرد کی صلاحیتیں اورہیں، عورت کی صلاحیتیں اور ہیں، اللہ تعالیٰ نے دونوں صنفیں اس طرح بنائی ہیں کہ دونوں کی تخلیقی ساخت اوراس کے نظام میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے لہٰذا یہ کہناکہ مرد اورعورت میں کسی طرح کا کوئی فرق نہیں ہے، یہ خود فطرت کے خلاف بغاوت ہے اورمشاہدہ کاانکار ہے۔ اس لئے کہ یہ تو آنکھوں سے نظر آرہا ہے کہ مرداور عورت کی ساخت میں فرق ہے۔
مرد کے ذمہ گھر کے باہر کے کام لگائے ، مثلاً کسب معاش اور روزی کمانے کا کام اورسیاسی اورسماجی کام وغیرہ، یہ سارے کام در حقیقت مرد کے ذمے عائد کئے ہیں اورگھر کے اندر کا شعبہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حوالے کیاہے وہ اس کو سنبھالیں۔ اگراللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آجاتا کہ عورت باہرکا انتظام کرے گی اورمرد گھر کا انتظام کرے گا تو بھی کوئی چوں و چراں کی مجال نہیں تھی۔
لیکن جس ماحول میں معاشرے کی پاکیزگی کی کوئی قیمت ہی نہ ہو، اور جہاں عفت و عصمت کے بجائے اخلاق باختگی اور حیا سوزی کومنتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو ، ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کار اورپردہ اور حیاء کو نہ صرف غیر ضروری، بلکہ راستے کی رکاوٹ سمجھا جائے گا۔ چنانچہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کے گھر میں رہنے کو اپنے لئے دوہری مصیبت سمجھا ۔ ایک طرف تو اس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کئے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہوناچاہتی تھی اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے دونوں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا، اس کا خوبصورت اورمعصوم نام ’’ تحریک آزادی نسواں ‘‘ ہے عور ت کو یہ پڑھایا گیا کہ تم اب تک گھر کی چاردیواری میں قید رہی ہو، اب آزادی کادورہے، اور تمہیں اس قید سے باہر آکر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہرکام میں حصہ لینا چاہئے۔ اب تک تمہیں حکومت و سیاست کے ایوانوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے اب تم باہرآکر زندگی کی جدوجہد میں برابر کا حصہ لو تو دنیا بھر کے اعزازات اوراونچے اونچے منصب تمہارا انتظار کررہے ہیں۔
عورت ان دل فریب نعروں سے متاثر ہوکر گھر سے باہر آگئی اور پروپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعے شور مچا مچا کر اسے یہ باورکرادیا گیا کہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعد آج آزادی ملی ہے ۔ انہی دلفریب نعروں کی آڑ میں عورت کو سڑکوں پر لایاگیا، اسے دفتروں کی کلرکی عطا کی گئی، اسے اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکرٹری کا ’’ منصب ‘‘ بخشا گیا اور اسے ’’اسٹینو ٹائپسٹ ‘‘ بننے کا اعزاز دیا گیا۔ اسے تجارت چمکانے کیلئے ’’ سیلزگرل ‘‘ اور ’’ ماڈل گر ل ‘‘ بننے کا شرف بخشا گیا اوراس کے ایک ایک عضوکو برسر بازار رسوا کر کے گاہکوں کو دعوت دی گئی کہ آئو اور ہم سے مال خریدو، یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پردین فطرت نے عزت و آبرو کا تاج رکھا تھا، اورجس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے ، تجارتی اداروں کیلئے ایک شو پیس اورمرد کی تھکن دور کرنے کیلئے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی۔
خواتین یہ نہ سمجھیں کہ یہ پردہ ہمارے لئے دشواری کا سبب ہے، بلکہ عورت کی فطرت میں پردہ داخل ہے، اور ’’ عورت ‘‘ کے معنی ہی ’’ چھپانے والی چیز ‘‘ کے ہیں جو تسکین اور راحت پردہ کی حالت میں ہوگی وہ تسکین بے پردگی اور کھلم کھلا اورعلانیہ رہنے کی حالت میں نہیں ہوگی ، لہٰذا پردہ کا تحفظ حیاء کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہم سب کو غلط خیالات سے نجات عطا فرمائیں۔ اوراللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔(اصلاحی خطبات جلد اول)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

