اپنی اصلاح سے پہلے فکر کرو
ہماری ناکامیوں کا بڑا اہم سبب میری نظر میں یہ ہے کہ ہم نے اجتماع کو درست کرنے کی فکر میں فرد کو کھو دیا ہے‘ اور اس فکر میں ہیں کہ ہم پورے معاشرے کی اصلاح کریںگے‘ فرد کی اصلاح کو بھول گئے ہیں‘ اور فرد کو بھولنے کے معنی یہ ہیں کہ فرد کو مسلمان بننے کیلئے جن تقاضوں کی ضرورت تھی‘ جس میں عبادات بھی داخل ہیں‘ جس میں تعلق مع اللہ بھی داخل ہے‘ جس میں اخلاق کا تزکیہ بھی داخل ہے‘ اور جس میں ساری تعلیمات پر عمل بھی داخل ہے‘ وہ سب پیچھے جا چکے ہیں‘ لہٰذا جب تک ہم اس کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے‘ اس وقت تک یہ تحریکیں اور ہماری یہ ساری کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس امت کے آخری زمانے کی اصلاح بھی اسی طرح ہو گی جس طرح پہلے زمانے کی اصلاح ہوئی تھی۔ اس کیلئے کوئی نیا فارمولا وجود میں نہیں آئے گا‘ اور پہلے زمانے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی فرد کی اصلاح کے راستے سے معاشرے کی اصلاح ہوئی تھی‘ لہٰذا اب بھی اصلاح کا وہی راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
ہماری ناکامی کا دوسرا اہم سببمیری نظر میں یہ ہے کہ اسلام کے تطبیقی پہلو پر ہمارا کام یا تو مفقود ہے‘ یا کم از کم ناکافی ہے‘ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم نے اجتماعیت پر اتنا زور دیا کہ عملاً اسی کو اسلام کا کل قرار دیدیا‘ اور دوسری طرف اس پہلو پر کماحقہ غور نہیں کیا کہ آج کے دور میں اس کی تطبیق کا طریقہ کار کیا ہو گا؟اور اگر کوئی لائحہ عمل تیار کیا تو وہ ناکافی تھا‘ میں یہ نہیں کہتا کہ … خدا نہ کرے … اسلام اس دور میں قابل عمل نہیں ہے۔
بلکہ جو شخص اسلام کو اس دور میں ناقابل عمل قرار دے‘ وہ دائرہ اسلام میں نہیں رہ سکتا‘ لیکن ظاہر ہے کہ اسلام کو اس دور میں برپا اور نافذ کرنے کیلئے کوئی طریق کار اختیار کرنا ہو گا۔ اس طریق کار کے بارے میں سنجیدہ تحقیق اور حقیقت پسندانہ غور و فکر اور تحقیق کی کمی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/