اپنی اصلاح کی فکر نہیں
یہ خیال شاذونادر ہی کسی اللہ کے بندے کے دل میں آتا ہے کہ میں بھی کسی خرابی کے اندر مبتلا ہوں۔میرے اندر بھی کچھ عیوب اور خرابیاں پائی جاتی ہیں اور ان خرابیوں کی اصلاح کرنا میرا سب سے پہلا فرض ہے ۔ میں دوسروں کی طرف بعد میں دیکھوں گا پہلے میں اپنا جائزہ لوںاور اپنی اصلاح کی پہلے فکر کروں ۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ جب اصلاح کے لئے کوئی جماعت ،کوئی تنظیم یا ادارہ قائم ہوتا ہے تو ہر شخص کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ میں عوام کی اصلاح کروں۔
لیکن میں اپنی اصلاح کروں اور اپنے عیوب کو دور کروں۔ یہ خیال شاذونادر ہی کسی اللہ کے بندے کے دل میں آتا ہوگا۔ اس عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ جب میں اپنے عیوب سے بے خبر ہوں ۔اپنی خرابیوں کی اصلاح کی تو مجھے فکر نہیں ہے۔ میرے اپنے اعمال اللہ کی رضا کے مطابق نہیں ہیں۔ اور میں دوسروں کی اصلاح کی فکر میں لگا ہوا ہوں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میری بات میں نہ تو کوئی اثر اور وزن ہوتا ہے اور نہ اس کے اندر برکت اور نور ہوتا ہے کہ وہ بات دوسروں کے دلوں میں اتر جائے اور وہ اس کو ماننے پر آمادہ ہو جائیں۔ بلکہ وہ ایک لچھے دار تقریر ہوتی ہے جو کانوں سے ٹکرا کر ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
آج اگر ہم دین کی کوئی بات کرتے ہیں تو اس میں عموماً اصلاح والی باتیں مفقود ہوتی ہیں۔ بلکہ عموما ان باتوں میں فرقہ واریت کے اندر مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین سے ناواقفیت اتنی عام ہو گئی ہے کہ پہلے دین کی جو باتیں چھوٹے بچوں کو معلوم ہوتی تھیں۔آج بڑے بڑے تعلیم یافتہ افراد کو بھی معلوم نہیں ہیں۔
قرآن کریم صاف صاف یہ کہہ رہا ہے کہ جب تک تم میں سے ہر شخص اپنی اصلاح کی فکر اپنے دل میں پیدا نہیں کریگامعاشرے کی اصلاح کبھی نہیں ہو گی چاہے اصلاح کی جتنی انجمنیں بنا لو‘جتنے ادارے قائم کر لو۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

