اپنے فرائض کا احساس کریں
میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں اللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اختیار کیا کہ دونوں کو ان کے فرائض بتا دیئے۔ شوہر کو بتا دیا کہ تمہارے فرائض یہ ہیں اوربیوی کو بتا دیا کہ تمہارے فرائض یہ ہیں ۔ ہر ایک اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے اوردر حقیقت زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی ہے کہ دونوں اپنے فرائض کا احساس کریںاور دوسرے کے حقوق کا پاس کریں۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کی اتنی فکرنہ ہو جتنی دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی فکر ہو ۔ اگر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو پھر یہ زندگی استوار ہوجاتی ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں ، زندگی کا سفر دونوں کو ایک ساتھ طے کرنا ہے، اب زندگی کے سفر کے طے کرنے میں انتظام کی خاطر یہ لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک شخص سفر کاذمہ دار ہو۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں بعض مرد حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ہم حاکم ہیں، لہٰذا ہمارااتنا رعب ہونا چاہئے کہ ہمارا نام سن کر بیوی کانپنے لگے اور بے تکلفی کے ساتھ بات نہ کرے۔
میرے ایک ہم سبق دوست تھے انہوں نے ایک مرتبہ بڑے فخر کے ساتھ مجھ سے یہ بات کہی کہ جب میں کئی مہینوں کے بعد اپنے گھر جاتا ہوں تو میرے بیوی بچوں کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ میرے پاس آجائیں اور مجھ سے بات کریں ، بڑے فخر کے ساتھ یہ بات کہہ رہے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ جب گھر جاتے ہیں تو کیا کوئی درندہ یا شیر چیتا بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے بیوی بچے آپ کے پاس آنے سے ڈرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں بلکہ اس لئے کہ ہم قوام ہیں ، ہمارا رعب ہونا چاہئے۔ اچھی طرح سمجھ لیں کہ قوام ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ بیوی بچے پاس آنے اور بات کرنے سے بھی ڈریں، بلکہ اس کے ساتھ دوستی کا تعلق بھی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/