اللہ والوں کا حادثات میں اندازِ فکر

اللہ والوں کا حادثات میں اندازِ فکر

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ اپنی کتاب ’’میرے والد میرے شیخ‘‘ میں فرماتے ہیں۔ محرم ۱۳۹۵ھ میں سب سے بڑے بھائی مولانا محمد ذکی کیفی مرحوم نے اچانک داغ مفارقت دیا۔ والد صاحب (مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ) کو ان سے بے پناہ تعلق تھا اور نرینہ اولاد میں وہ چونکہ سب سے بڑے تھے ‘اس لئے زندگی کے ہر مرحلہ میں آپ کو ان سے راحت بھی سب سے زیادہ پہنچی۔ ان کی وفات ایک ایسی رات میں ہوئی جب حضرت والد صاحب خود مختلف قسم کی بیماریوں کی بنا پر صاحب فراش تھے اور ٹانگوں میں ہر پیر کی اتنی اذیت ناک سوزش تھی کہ عمر بھر ایسی اذیت آپ کو بھی یاد نہ تھی۔ ہمارے لئے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ اس عالم میں آپ ایسے جانکاہ صدمہ کو کیسے برداشت کریں گے؟ لیکن اس پیکر تسلیم و رضا نے اس روح فرسا حادثہ پر جو تبصرہ فرمایا۔ وہ بھائی جان مرحوم کے بچوں کے نام ایک خط سے واضح ہوگا۔ اس خط کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

میرے عزیز بچو! یہ واقعہ جیسا کرب انگیز‘ حسرت ناک اور جان کاہ ہے اس کا اثر مرحوم ہوجانے والے نوجوان صالح کے ماں باپ‘ بچوں اور بیوی اور بھائی بہنوں پر درجہ بدرجہ جو کچھ ہونا تھا وہ ایک طبعی اور فطری امر ہے اور جب تک حدود سے تجاوز نہ ہو شرعاً یہ مذموم بھی نہیں۔ لیکن یہ سب کرب انگیزی اور غم و صدمہ کا یک طرفہ پہلو صرف اس بنیاد پر ہے کہ ہم واقعات کو الٹا پڑھتے ہیں کہ ایک پچاس سالہ نوجوان یکایک ہم سے رخصت ہوگیا۔ اس کا اثر ظاہر ہے کہ بے چینی اور شدید ترین صدمہ ہی ہوسکتا ہے۔

آئو! اب واقعات کو ذرا سیدھا پڑھو کہ صبر آئے بلکہ شکر کا موقع ملے۔ ذرا سمجھو کہ ہر مومن کا عقیدہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان کی عمر کی گھڑیاں اور سانس اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ کے دفتر میں لکھے ہوتے ہیں۔ جانے والا لخت جگر پچاس سال سترہ دن کی زندگی لے کر اس دنیا میں آیا تھا۔ زمین و آسمان اپنی جگہ سے ٹل سکتا تھا لیکن قضا و قدر کے اس فیصلہ میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آسکتا تھا۔

ذرا یہ سوچو! اس حادثہ جانکاہ کو ہم سب پر آسان کرنے کیلئے حق تعالیٰ جل شانہ نے کیسے کیسے انعامات فرمائے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ الحمدللہ اپنی تمام ہی اولاد کو اس حالت میں چھوڑ گئے جبکہ وہ کسی کے محتاج نہ تھے۔ ذرا سوچو ! کہ اگر معاملہ اس کے خلاف ہوتا تو یہی ایک مصیبت دس گنا بن جاتی۔

اور ان تمام انعامات سے بڑھ کر سب سے بڑا انعام یہ کہ آخری عمر میں انکو حج سے مشرف فرما کر گناہوں سے پاک و صاف اپنی بارگاہ میں بلا لیا۔ اب غور کرو! اگر جانے والے کو پہلے یہ قطعی اطلاع ہوجاتی کہ عاشورہ محرم ۱۳۹۵ھ ان کی عمر کا آخری دن ہے اور وہ خود اپنے مرنے کا سامان تیار کرتے تو اس سے بہتر اور مرنے کا کیا سامان ہوتا؟

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more