اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھیں
از افادات: شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی
اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کے ساتھ اس کی رحمت سے اپنے لئے بھلائی کی امید رکھنا بھی بہت عظیم عمل ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:إِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ عِبَادَۃِ اللّٰہِ (اللہ تعالیٰ سے ) اچھا گمان رکھنا بھی اللہ تعالیٰ کی اچھی عبادت ہے۔(ترمذی و حاکم)
اور ایک حدیث قدسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ اَنَا عِنْدَظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘ وَأَنَامَعَہٗ حَیْثُ یَذْکُرُنِیْ۔۔۔میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے میں اس کے مطابق ہوں اور جہاں وہ مجھے یاد کرے‘ میں اس کے ساتھ ہوں۔ (بخاری و مسلم)غرض قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اچھی امید رکھنے کے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش میں لگا رہے۔ اورجہاں اس کوشش کے باوجود غلطیاں اور کوتاہیاں ہو جائیں تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے۔
لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احکام سے بالکل غافل ہو‘ اپنی اصلاح کی مطلق فکر نہ کرے اور اپنے آپ کو بے لگام نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے آزاد چھوڑ دے۔ اور اس غفلت اور بے فکری کے باوجود یہ آرزوئیں باندھے کہ خود بخود مغفرت ہو جائے گی تو ایسے شخص کی حدیث میں سخت مذمت کی گئی ہے۔
صحیح طرزعمل یہ ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر کے ساتھ انسان اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت ‘ اس کے ساتھ حسن ظن اور اس کی رحمت کی امید دونوں باتوں کو اس طرح جمع کرے کہ ’’بیم و رجا‘‘ (اُمید و خوف) کی ملی جلی کیفیت اس پر طاری رہے۔( بحوالہ آسان نیکیاں)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/