اہل مدارس کے لئے سبق آموز واقعات
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:۔
حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری رحمہ اللہ کا قیام ہمیشہ کلکتہ رہا۔ کلکتہ اور اسکے نواح کے لوگ حضرت سے واقف تھے اس لیے ایک مرتبہ آپ نے مدرسہ مظاہرالعلوم کے چندہ کے لیے کلکتہ کا سفر فرمایا اور سفر سے واپسی پر سفر خرچ میں ایک ایک پیسہ کا حساب درج تھا۔ اس حساب کو میں نے خود بھی نہایت بے غیرتی سے پڑھا کہ جن کے اکابر کی یہ احتیاط ہو انکے اصاغر کی بے التفاتیاں انتہائی موجب قلق ہیں۔ اس حساب کے اخیر میں ایک نوٹ یہ بھی تھا کہ کلکتہ سے فلاں جگہ میں اپنے ایک دوست سے ملنے کی غرض سے گیا تھا۔ اگرچہ وہاں چندہ اندازہ سے زیادہ ہوا لیکن میرے سفر کی غرض چندہ کی نیت سے جانے کی نہیں تھی اس لیے اتنی مقدار سفر کلکتہ سے وضع کرلیا جائے۔
استاذ المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد رحمہ اللہ ایک سال قیام حجاز کے بعد جب سہارن پور تشریف لائے تو یہ کہہ کر مدرسہ کی تنخواہ بند کردی تھی کہ میں اپنے ضعف و پیری کیوجہ سے مدرسہ کا پورا کام انجام نہیں دے سکتا مگر اب تک چونکہ مولانا یحییٰ صاحب میری جگہ اسباق پڑھاتے تھے اور تنخواہ نہیں لیتے تھے وہ میرا ہی کام سمجھ کر کرتے تھے اور میں اور وہ دونوں مل کر ایک مدرس سے زیادہ کام کرتے تھے۔ اب چونکہ انکا انتقال ہوچکا ہے اورمیں مدرسہ کی تعلیم کا پورا کام نہیں کرسکتا ۔اس لیے قبول تنخواہ سے معذور ہوں۔
حضرت سہارنپوری نور اللہ مرقدہ جب تک سبق پڑھاتے رہتے اتنی دیر تو مدرسہ کی قالین پر تشریف فرمارہتے تھے لیکن جب سبق کے بعد اپنے اعزہ میںسے کسی ذی وجاہت شخص سے بھی بات شروع کی تو قالین سے نیچے اُتر جاتے اور فرماتے کہ مدرسہ نے یہ قالین ہمیں سبق پڑھانے کیلئے دیا ہے‘ ذاتی استعمال کیلئے نہیں دیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی محتاط زندگی عطا فرمائیں آمین۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

