اَسلاف کے عمل کی اہمیت

اَسلاف کے عمل کی اہمیت

تابعین ؒ اور تبع تابعینؒ کے زمانے میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور اکابر تابعینؒ کا تعامل کسی مسئلہ میں حجت قاطعہ شمار ہوتا تھا اور احادیث کی صحت و سقم کے لئے معیار کی حیثیت رکھتا تھا جو احادیث کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعینؒ کے تعامل کے خلاف ہوتیں انہیں شاذ منسوخ یا موول سمجھا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ امام مالکؒ موطا میں جگہ جگہ تعامل اہل مدینہ کا حوالہ دیتے ہیں اور جو احادیث اہل مدینہ کے تعامل کے خلاف ہوں انہیں غیر معمول بہا قرار دیتے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ دوسری صدی میں احادیث کے جتنے مجموعے مرتب کئے گئے ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ساتھ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کا تعامل بھی ذکر کیا جاتا تھا لیکن خیرالقرون کے بعد چونکہ معیاری تعامل آنکھوں کے سامنے نہیں رہا تھا اس لئے احادیث کی صحت و سقم اور ان کے معمول بہا ہونے یا نہ ہونے کا مدار صرف سند کی صحت و ضعف اور راویوں کی جرح و تعدیل پر رہ گیا اور روایات کے مقابلہ میں تعامل سلف کی اہمیت نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
یہاں تک کہ بعض لوگوں کو خیال ہونے لگا کہ ایک ایسی روایت جس کے راوی ثقہ ہوں اس کے مقابلہ میں حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا تعامل بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا کسی روایت کے راویوں کی ثقاہت و عدالت اور فہم و دیانت کو حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے تعامل پر ترجیح دے ڈالنا نہ صرف یہ کہ صحت مندانہ طرز فکر نہیں ہو سکتا بلکہ اگر اسے رفض کا خفی شعبہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا کیونکہ رفض کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ بعد کے راویوں کی روایات کے بھروسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو نص نبوی کی مخالفت سے مطعون کیا جائے۔
اول تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے حالات سے واضح ہے کہ انہوں نے (اپنی اپنی استعداد کے مطابق) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال اور احوال کو اپنے اندر ایسا جذب کر لیا تھا کہ ان کی سیرت جمال نبوی کا آئینہ بن گئی تھی اور پھر وہ سنت کے ایسے عاشق تھے کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی تھی ادھر قرآن کریم میں ان کے راستہ کو ’’ سَبِیْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ کہہ کر ان کی اقتدا کا حکم فرمایا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتدا کے بارے میں جو وصیتیں اور تاکیدیں فرمائی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں ان وجوہ کے پیش نظر سنت ثابتہ وہی ہے جس پر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کا تعامل رہا اور جو روایت ان کے تعامل کے خلاف ہو وہ یا تو منسوخ کہلائے گی یا اس میں تاویل کی ضرورت ہو گی۔ ایسی روایات جو تعامل سلف کے خلاف ہوں صدر اول میں ’’شاذ‘‘ شمار کی جاتی تھیں اور جس طرح متاخرین محدثین کی اصطلاحی ’’شاذ‘‘ روایت حجت نہیں اسی طرح متقدمین کے نزدیک ایسی شاذ روایات حجت نہیں تھیں۔
اگر بنظر تعمق دیکھا جائے تو تعامل ہی کی برکت سے ہمارے دین کا نصف حصہ عملاً متواتر ہے اور تعامل ہی تعلیم و تعلم کا قوی ترین ذریعہ ہے۔ اگر تعامل کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو محض روایات کو سامنے رکھ کر کوئی شخص نماز کا مکمل نقشہ بھی مرتب نہیں کر سکتا۔ جو دن میں پانچ بار پڑھی جاتی ہے۔
چہ جائیکہ پورے دین کا نظام مرتب کر دیا جائے اس لئے صحیح طرز فکر یہ ہے کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعینؒ کے تعامل اور روایات کو بیک وقت پیش نظر رکھ کر

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more