حکیم الامت رحمہ اللہ کا مخالف سے برتائو
مولانا احمد حسن صاحب حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی خدمت میں عرصہ دراز سے رہتے تھے ۔۔۔۔ ذی علم ہونے کی بناء پر حضرتؒ نے ایک کتاب کی تصنیف کا کام بھی ان کے سپرد فرما دیا تھا جس کی تنخواہ ان کو عطا فرماتے تھے۔۔۔۔ مولوی صاحب موصوف خشک کتابی تقویٰ کے بڑے دلدادہ تھے اورحضرتؒ پر اعتراض کیا کرتے تھے کہ ان میں تقویٰ نہیں۔۔۔۔ حضرت کو اس کا علم ہوتا تو فرماتے کہ وہ سچ کہتے ہیں میں کہاں کا متقی ہوں اس پر کبھی ناگواری پیش نہیں آتی۔۔۔۔
اتفاقاً اسی زمانہ میں تحریک خلافت چلی جس میں کانگریس کے ہندو بھی شریک ہوگئے اور ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد پر آزادی ہند کی تحریک نے خلافت کی جگہ لے لی ۔۔۔۔ اس ہندو مسلم اشتراک نے جگہ جگہ خلاف شرع امور کو رواج دیا۔۔۔۔ بعض اکابر علماء نے اصل مقصد یعنی انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کو اہم سمجھ کر اس اشتراک کو قبول کیا اور جہاں اس اشتراک کی وجہ سے خلاف شرع امور کا ارتکاب ہوتا تو وہ اس پر نکیر بھی فرماتے۔۔۔۔مگر تحریک عوامی ہو چکی تھی ۔۔۔۔ علماء کی فکر کا اثر بہت محدود دائرے میں رہتا ہے اور عام مسلمان غلط راستہ پر پڑ کر کفر و اسلام کا امتیاز کھوتے جاتے تھے۔۔۔۔
حضرت رحمہ اللہ اس طرح اشتراک کو شرعاً جائز بھی نہ جانتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے انجام کار مفید بھی نہ سمجھتے تھے (جیسا کہ بعد کے واقعات نے اس کا مشاہدہ کرادیا)لیکن جو علماء اس کے جواز کے قائل تھے ان کا احترام و ادب ہمیشہ قائم رہا ان کے قول پر عمل کرنے والوں کے ساتھ وہی معاملہ رہا جو اجتہادی مسائل کے اختلاف میں رہنا چاہئے۔۔۔۔
مولوی صاحب مذکورہ اس معاملے میں بھی حضرتؒ کے خلاف کانگریس کے حامی علماء کے ساتھ متفق الرائے تھے۔۔۔۔ اس حد تک حضرتؒ کو کوئی ناگواری نہ تھی مگر وہ کچھ آگے بڑھے اور خانقاہ امدادیہ میں رہتے ہوئے حضرت کے فتویٰ کے خلاف فتاویٰ شائع کرائے۔۔۔۔جلسوں میں تقریریں کیں خانقاہ میں آنے والوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوششوں میں تیز ہوگئے تو حضرتؒنے ان سے فرمایا کہ:’’ میں آپ کو آپ کی رائے سے نہیں روکتا کہ مسئلہ اجتہادی ہے مگر ایک جگہ رہ کر اختلاف کرنا مناسب نہیں اس لئے اب مصلحت یہ ہے کہ آپ اپنے وطن چلے جائیں اور جو تصنیف کا کام آپ یہاں کررہے ہیں وہاں جاکر کریں اور یہی تنخواہ جو آپ کو یہاں مل رہی ہے وہاں پہنچتی رہے گی۔۔۔۔پھر آپ کھل کر خلافت و کانگریس کی موافقت میں فتویٰ دیں اور تقریریں کریں مجھے کوئی گرانی نہیں ہوگی۔۔۔۔ پھر جب یہ تحریک یکسو ہو جائے تو پھر یہاں آجائیے۔۔۔۔
حضرتؒ نے فرمایا مگر اللہ کے بندے نے کسی چیز کو نہ مانا مولوی صاحب بہت مدعی تقویٰ تھے حیدر آباد وغیرہ، ریاستوں سے جو وظائف علماء یا مدارس کو ملتے تھے ان سب کو حرام کہتے تھے وجہ یہ تھی کہ ان کا تقویٰ صرف کتابی تھا ۔۔۔۔ کسی بزرگ کی صحبت میں اصلاح نفس کے قصد سے رہے نہیں تھے اور محض کتابوں اور مطالعہ پر اعتماد کرنے والے عموماً ایسی بلائوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ (مجالس حکیم الامت)
