شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تھانہ بھون تشریف آوری
ایک دفعہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ تھانہ بھون تشریف لائے کسی نے حکیم الامت حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ کو اطلاع کی کہ مولوی حسین احمد صاحب ٹانڈوی آئے ہیں۔۔۔۔ حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا۔۔۔ کیا ہمارے مولانا حسین احمد صاحب (دیوبند والے) ہیں؟ کہا جی ہاں! فرمایا کدھر ہیں؟ اور اٹھ کر دروازہ تک تشریف لائے۔۔۔۔ سلام، مصافحہ معانقہ فرمایا۔۔۔۔ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ نے دست بوسی فرمائی حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ ہاتھ پکڑ کر لائے اور اپنی مسند پر اپنے برابر بٹھایا۔۔۔۔ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ نے مسند پر بیٹھنے سے انکار کیا۔۔۔۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔۔ میرا حکم یہی ہے یہیں بیٹھو اس کے بعد گفتگو ہوئی۔۔۔۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔۔ آپ نے زیادتی کی کہ اطلاع نہیں فرمائی۔۔۔۔ اگر اپنی آمد کی پہلے سے اطلاع فرما دیتے تو کسی سواری کا انتظام کر دیتا اور دو چار آدمی استقبال کے لئے بھیج دیتا۔۔۔۔
حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا۔۔۔۔ حضرت! اپنے گھر آنے کے لئے کیا اطلاع کی ضرورت ہوتی ہے؟۔۔ حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا آپ کے اس جواب سے بہت مسرت ہوئی کہ اس گھر کو اپنا گھر فرمایا۔۔۔۔ اچھا بتائیے آپ کیا کھائیں گے۔۔۔۔ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا روٹی اور شلجم کا اچار۔۔۔۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں گھر آدمی کو بھیجا کہ جس گھر میں شلجم کا اچار اور روٹی ہو لائیں۔۔۔۔ چنانچہ روٹی اور شلجم کا اچار اور لسی لائی گئی۔۔۔۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے ساتھ میرے دو ساتھی ہیں، اگر اجازت ہو تو وہ بھی ساتھ کھا لیں اس پر حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے محاسبہ فرمایا کہ جب آپ نے اس گھر کو اپنا گھر فرمایا ہے تو پھر اجازت کا کیا مطلب؟ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔۔۔۔ مہمان کے سامنے جو کھانا آتا ہے وہ اباحت ہوتا ہے ملک نہیں۔۔۔۔ مہمان کو کھانے کا تو حق ہوتا ہے اور تصرف کا نہیں۔۔۔۔ اس لئے اجازت طلب کی۔۔۔۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں اجازت ہے، کھانے سے فراغت پر حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے پگڑی منگائی اور حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش فرمائی۔۔۔۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے پگڑی کو آنکھوں سے لگایا سر پر رکھا اور فرمایا حضرت کو معلوم ہے کہ میں بدیسی کپڑا استعمال نہیں کرتا۔۔۔۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھ سے سہو ہو گیا قصداً میں نے ایسا نہیں کیا اور آدمی بھیجا کہ گھر سے کھدر کی پگڑی لائیں۔۔۔۔ کھدر کی پگڑی آ گئی اس کو پیش فرمایا، اور چاندی کے دو روپے نذرانہ دئیے، حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ نے ان کو پگڑی میں باندھ لیا اور پگڑی حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے سامنیکر کے سر جھکا دیا کہ حضرت خود اپنے ہاتھ سے باندھ دیں۔۔۔۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کے سر مبارک پر پگڑی باندھی۔۔۔۔ اس طرح کہ وہ روپے اوپر کی طرف آ گئے۔۔۔۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اوپر کی طرف پگڑی میں اڑس لیا۔۔۔۔ اس کے بعد رخصت کرتے ہوئے حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں آپ کو اپنے استاذ شیخ العالم (حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ کو شیخ العالم فرمایا کرتے تھے) کے قائم مقام سمجھتا ہوں۔۔۔۔
ایک دفعہ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ تھانہ بھون تشریف لائے کہ خانقاہ کا دروازہ بند ہو چکا تھا دروازہ کھلوایا۔۔۔۔ دربان نے دروازہ نہیں کھولا کہ قانون کے خلاف ہے۔۔۔۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ بستر اٹھا کر حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکان پر تشریف لائے وہاں بھی دروازہ بند ہو چکا تھا۔۔۔۔ دروازہ کے باہر ہی بستر بچھا کر سو رہے۔۔۔۔ صبح کو دروازہ کھلا حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔۔
آپ اس وقت کہاں؟۔۔۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔۔ آپ کا قانون کسی غریب مسافر کو خانقاہ میں ٹھہرنے کی کہاں اجازت دیتا ہے؟
حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کو ساتھ لے کر خانقاہ تشریف لائے اور دربان سے فرمایا کہ دیکھو مولانا اس قانون سے مستثنیٰ ہیں۔۔۔۔ مولانا جس وقت بھی تشریف لایا کریں دروازہ کھول دیا کریں۔۔۔۔
