ماہر کا فیصلہ معتبر ہے
مریض کے بارے میں اطبا ماہرین سے رائے لی جاتی ہے مقدمات میں وکلاء اور قانون دان صاحبوں سے رائے لی جاتی ہے غرض ہر کام میں اس کام کے جاننے والوں کی رائے لی جاتی ہے نہ کہ دوسرے جاننے والوں کی غرض دین کے بارے میں بھی غیر علماء کی رائے معتبر نہیں ہوگی خواہ کتنی ہی کثرت ہو ادھر ایک عالم ہو اور ادھر ہزار عامی لیکن ترجیح عالم ہی کی رائے کو ہوگی کثرت کا لحاظ کسی طرح نہ کیا جائے گا اور عالم کی رائے بھی اس وقت لی جائے گی جبکہ نص کے موافق ہو اگر نص کی موافقت میں اجتہادی اختلاف ہو وہاں دونوں طرف حق متحمل ہوگا مجتہد کو اپنی رائے پر اور غیر مجتہد کو کسی مجتہد کی رائے پر جس سے اعتقاد زیادہ ہو گو دلیل اجمالی سے ہو عمل کرنا ہوگا۔ ( ص ۵ ۹ ج۲۶)
