اصل کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے
حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا۔ ایک مرتبہ کراچی کی ایک مسجد میں جانا ہوا تو وہاں ایک مسجد میں دو گھڑیاں تھیں، ایک مسجد کے اندر تھی اور ایک گھڑی مسجد کے باہر دالان میں تھی اور دونوں میں پانچ منٹ کا فرق تھا۔
حالانکہ دونوں گھڑیاں ایک ہی کمپنی کی تھیں اور دونوں کو ایک ساتھ ایک ہی وقت میں لگایا گیا تھا تو سوال یہ ہے کہ اب یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی گھڑی درست ہے اور کون سی غلط ہے جبکہ احتمال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اندر کی گھڑی درست ہو اور باہر کی غلط ہو یا باہر کی درست ہو اندر کی غلط ہو۔
یہاں ایک تیسرا احتمال بھی ہے کہ جس کی طرف ذہن جلدی نہیں جاتا ہے وہ یہ کہ ہوسکتا ہے کہ ایک ڈھائی منٹ تیز ہو اور ایک ڈھائی منٹ سست ہو اب صحیح ہونے کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟ تو لامحالہ ایک تیسری چیز کی ضرورت پڑے گی جو صحیح اور غلط کو بتا سکے وہ یہ ہے کہ ایک تیسری گھڑی دیکھی جائے کہ جس کو گھڑی ساز نے صحیح وقت کے ساتھ بنایا ہے تو پتہ چل جائے گا کہ درست کون ہے اور غلط کون ہے ۔
یہی اشکال اس صورت میں بھی ہوتا ہے کہ مثلاً زید عمر دونوں ایک ہی مدرسہ سے پڑھے ہوئے ہیں مگر ان کے درمیان اخلاق و اعمال وغیرہ میں اختلاف ہے جبکہ دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی استاد سے ایک ساتھ مدرسے میں پڑھے ہوئے ہیں اب ان میں سے کون درست اور کون غلط ہے ؟
اس کا فیصلہ اور موازنہ ہوگا اس طرح سے کہ ان کے استاد صاحب کو دیکھ لیا جائے خود پتہ چل جائے گا کہ کون ٹھیک راہ پر ہے کون غلط کس کا عمل درست ہے کس کا غلط ہر چیز میں فیصلہ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس کے اصل کو دیکھا جائے کہ کہاں سے وہ آیا ہے خود ہی پتہ چل جائے گا اگر اصل کے مطابق ہے تو ٹھیک ہے اور اگر اصل کے خلاف ہے تو غلط ہوگا ۔( مجالس محی السنۃ ص ۴۴)
