اختلاف ناگزیر ہے
علماء کا اختلاف آج نہیں، سو پچاس برس کا نہیں بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہے علماء میں اختلاف رحمت ہے اور بد یہی امر ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی شرعی دلیل سے کوئی فتویٰ دے گا دوسرے کے نزدیک اگر وہ حجت صحیح نہیں وہ شرعاً اختلاف کرنے پر مجبور ہے اگر اختلاف نہ کرے تو مداہن اور عاصی ہے ۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہزاروں مسئلے مختلف فیھا ہیں اور ائمہ اربعہ کے یہاں تو شاید فقہ کی کوئی جزئی ہو جو مختلف فیہ نہ ہو چار رکعت نماز میں نیت باندھنے سے سلام پھیرنے تک دو سو مسئلے ائمہ اربعہ کے یہاں ایسے مختلف فیہ ہیں جو مجھ کو تاہ نظر کی نگاہ سے بھی گذر چکے ہیں اور اس سے زائد نہ معلوم کتنے ہوں گے ( فضائل تبلیغ ص ۳۴)
امام حدیث شمس الدین ذہبی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ جس مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اﷲ کا اختلاف ہوگیا وہ اختلاف قیامت تک مٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ اس اختلاف کے مٹانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان میں سے ایک گروہ کو قطعی طور پر حق اور دوسرے کو یقینی باطل قرار دیا جائے اور یہ ممکن نہیں ۔( وحدت امت)
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ابو زید دیوسی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا کہ جس مسئلہ میں فقہا ء وصحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہوجائے اس سے پوری طرح نکل جانا یا اختلاف کا فیصلہ کرکے پوری طرح ایک طرف ہوجانا کہ دوسری طرف کچھ نہ رہے بہت مشکل ہے ۔( متاع وقت ص ۲۸۲)
